طالبان کی جانب سے لدہ اور مکین کو مذاکرات کیلئے خالی کرنے کی تجویز،حکومت کی طرف سے بنوں کا انتخاب کرنا چاہتی ہے، پروفیسر ابراہیم

طالبان مستقبل میں سیاسی پلیٹ فارم کا استعمال کر سکتے ہیں، احرارالہند کے بارے میں طالبان سے وضاحتیں طلب کیں ہیں، طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کی اُردو پوائنٹ کے نمائندہ خصوصی رحمت اللہ شباب سے خصوصی گفتگو

Rehmat Ullah Shabab رحمت اللہ شباب جمعرات 15 جون 2017

Professer Ibrahim Interview

 جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر طالبان کمیٹی کے رُکن پروفیسر محمد ابراہیم نے المرکز الاسلامی پشاور میں اُردو پوائنٹ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے کہ طالبان نے مذاکرات کیلئے جن علاقوں کی تجویذ کی ہے اگر حکومت نے اُسی حوالے سے اقدامات اُٹھائے تو اعتماد سازی میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے اس لئے حکومت کو اعتماد سازی کیلئے اقدامات اُٹھانے چاہیئے کیونکہ طالبان مذاکرات کیلئے مکمل سنجیدہ ہو چکے ہیں اور وہ حکومتی کمیٹی کے اراکین سے براہ رست مذاکرات کیلئے مکمل طور پر تیار ہو چکے ہیں ۔جگہ کا تعین اب تک ایک مسئلہ ہے انشاء اللہ آئندہ ایک دو دن میں جگہ کا تعین بھی ہو جائیگا۔جب اُن سے سوال کیا گیا کہ طالبان کے سیاسی شوریٰ کے اراکین بندوبستی علاقہ جات میں آکر مذاکرات کرینگے تو اُنکا کہنا تھا کہ طالبان نے جنوبی وزیرستان کے تحصیل مکین اور لدہ مذاکرات کیلئے سیکیور کرنے کی تجویذ دی تھی، تاہم حکومت نے جنوبی وزیرستان کے بجائے بنوں بکا خیل ایئر پورٹ کا انتخاب کیا تھاجنکی وجہ سے اب تک جگہ کا تعین اور اعتماد سازی کی فضاء قائم ہونے سے پہلے کچھ کہنا قابل از وقت ہے کیونکہ طالبا ن کیساتھ سابقہ دور حکومت میں کچھ اس طرح کے واقعات رونما ہُوئے تھے جس میں طالبان کمانڈر مسلم خان اور کمانڈر عُمر جنکو حکومت نے مذاکرات کے بہانے بُلا کر اُنکو گرفتار کئے تھے جنکی وجہ اب طالبان کیااعتماد بحال نہیں ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

شرائط کے حوالے سے سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اب تک باضابطہ طور پر کوئی بڑے شرائط تو سامنے نہیں آئے البتہ نو 9/فروری کو دورہ وزیرستان کے دوران طالبان کے سیاسی شوریٰ نے مذاکرات کیلئے کچھ علاقوں کو حالی جبکہ حکومتی تحویل میں بچّے،خواتین اور ضائف قیدیوں کی رہائی کے شرائط کیساتھ ساتھ طالبان کمانڈروں کی بوری بند لاشوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا جنکو ہم نے 11فروری کو حکومتی کمیٹی کے سامنے یہ مطالبے رکھے تھے

پروفیسر ابراہیم سے انٹرویو کی تصاویر

سیاسی شوریٰ کے نام کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ طالبان کے اپنے طریقے ہیں یہ تو ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے اپنے مذاکراتی شوریٰ کا نام سیاسی شوریٰ کیوں رکھا ہے لیکن موجودہ حالات سے ایسا معلو م ہوتا ہے کہ طالبان مستقبل میں ایک سیاسی پلیٹ فارم کا استعمال کر سکتے ہیں ۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ طالبان تو پاکستانی آئین کو تسلیم نہیں کرتے تو مذاکرات کس آئین کے تحت ہونگے اور اگر مستقبل میں وہ سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے تو کونسے آئین کو فالوآن کرینگے۔اس سوال کے جواب میں پروفیسر محمد ابراہیم نے مسکرا کر بتایا کہ پاکستان کلمہء طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھااور کلمہء طیبہء پر حاصل کئے گئے ملک میں آئین بھی کلمہء طیبہ کا ہونا چاہیئے اگر موجودہ آئین پر اسلامی نقطہء نظر پر بات کی جائے تو طالبان رضامند ہیں اور اس وقت پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل بھی موجود ہے ان کے علاوہ علماء کرام کی کمی بھی نہیں ہیں اور اگر اسی یہ قوانین کو اسلامی شکل دی جائے تو پاکستان کا آئین جہاں پر اُنگلیاں اُٹھائے جا سکتے ہیں تو میرے خیال میں وہ نہیں ہونگے لیکن ان کیلئے علماء کرام ،سیاسی جماعتوں اور دیگر مکتبہ فکر طبقات کیساتھ ساتھ میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔اس وقت میڈیا کا کردار بہت افسوس ناک ہے میڈیا کو چاہیئے کہ ملک میں سروے کریں اور قوم کو وہ حقائق بتائے جو قوم اور ملک اور اسلام کے مفاد میں ہوں۔ میڈیا کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے آپریشن کیلئے راہ ہموار ہوتی جا رہی ہے اور خدا نخواستہ مذاکرات ناکام ہُوئے تو آپریشن کی صورت میں ایک تو لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائینگے اور دوسرا یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائیگااور ایک اندازے کے مطابق اب بھی فاٹا کے سوزش زدہ علاقوں سے دس سے پندرہ لاکھ کے درمیان لوگ خانہ بدوش ہو چکے ہیں جنکی بوجھ بندوبستی علاقوں پر پڑ رہا ہے ،اور اگر مذاکرات کامیاب ہُوئے تو ایک تو یہ لوگ اپنے علاقوں واپس چلے جایئنگے اور دوسرا خون خرابے کا سلسلہ بند ہو جائیگااور ویسے بھی قبائلی رسم و رواج میں مل بیٹھ کر جرگہ سسٹم کے ذریعے امن لانے کا بہترین راستہ ہے جن پر اب دونوں فریقین متّحد بھی ہو چکے ہیں جو یقیناًایک خوشی کی بات ہے ۔

شمالی وزیرستا ن میں مذاکرات کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں پروفیسر ابراہیم نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کے مقامی طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کا حکوت کیساتھ امن معاہدہ قائم ہے جنکی وجہ سے تحریک طالبان یہ نہیں چاہتے کہ شمالی وزرستان میں قائم امن معاہدے کو اُنہی کی وجہ سے نقصان پہنچے۔اور اگر حکومت اور طالبان دونوں راضی ہُوئے تو شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کا آفس مذاکرات کیلئے ایک بہترین مقام ہو سکتا ہے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کی افواج پاکستان نے ماضی میں فاٹا میں مختلف مقامات پر 11امن معاہدے کئے جا چکے تھے جن میں کئی معاہدے اب بھی قائم ہیں لیکن اس با ر یہ معاہدہ پورے ملک کے لئے ہو رہا ہے جن سے فوج نے کناہ کشی اختیار کر لی ہے کیا وجہ ہے اس سوال کے جواب میں پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوجی حکوت تھی تمام فیصلے فوجی قیادت کرتے تھے اب پاکستان میں ایک سویلین حکومت قائم ہو چکی ہے اور یہ نہایت خوش آئندہ بات ہے کہ سویلین حکومت نے حلوص نیت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے علماء کرام اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا اور یہ اور بھی ایک اچھی بات ہے کہ عسکری قیادت نے سیاستدانوں پر اعتماد کرتے ہُوئے مذاکرات کا تمام اختیار سول حکومت کو دیا کہ وہ جیسے چاہے مذاکرات کریں فوجی قیادت انکی مکمل حمایت کرینگے حالانکہ طالبان کمیٹی اور طالبان خود مذاکرات میں فوج کی شمولیت کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن انکی طرف سے حمایت کے بعد اب مذاکرات فوجی شمولیت کے بغیر بھی کامیابی کی طرف ہمکنار ہو سکتے ہیں۔

احرارالہند کے حوالے سے پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ راولپنڈی کے افسوسناک واقعے کے بعد احرارالہند کا نام سامنے آیا ہے ہم نے طالبا ن سے اس حوالے بات کی وہ انکی معلومات کر رہے ہیں لیکن طالبان خود بھی نہیں جانتے کہ احراارالہند والے کون ہیں؟ مجھے تو مذاکرات کو ہائی جیک کرنے کی ایک سازش لگ رہا ہے ۔حالیہ دنوں میں کچھ وفاقی وزراء کی طرف سے دیئے گئے بیانات کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ وفاقی وزراء اور سیاستدانوں کو ملک میں امن قائم کرنے کیلئے ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیئے جن سے مذاکرات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوں کیونکہ انکے بیانات سے مخالف طرف سے بھی بیانات آ سکتے ہیں اور میرے خیال میں ان وزراء کے بیانات کا جواب تو طالبان ترجمان نے دیا ہے اسی حوالے مجھے مذید کچھ بات نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو خود اس بیان کا نوٹس لینا چاہیئے ۔

جب ان سے سوال کیا گیا کیا ایک طرف مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف بم دھماکے کون کر رہا ہے تو انکا کہنا تھا کہ جو بھی کر رہا ہے انکو تلاش کرنا حکومت کا کام ہے کیونکہ طالبان سیز فائر قائم ہیں اور اپنے ساتھ تنظیموں کو بھی عسکری کاروائیوں سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔حالیہ دنوں جندواللہ کی طرف سے حملے روکنے کا اعلان طالبان کی بڑی کامیابی ہے اور یہ حملے جو بھی کر رہا ہے وہ ملک و قوم کے دُشمن ہیں ۔سیز فائر کے سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ سیز فائر میں ابھی وقت ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو طالبان کمیٹی ایک بار پھر سیاسی شوریٰ کیساتھ مذاکرات میں تو سیع کے حوالے سے بات کی جائیگی ۔قبائلی علاقاجات میں پولیو وائرس کی تعداد میں اضافے اور طالبان کی طرف پابندی کے سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا تھا پولیو مہم کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ امریکہ نے شکیل آفریدی کے روپ میں جاسوس پاکستان میں پیدا کئے ہیں جنکی وجہ سے پولیو مہم پر برا اثر پڑا ہے اس وقت ہمارا اصل ہدف مذاکرات ہے اور مذاکراتی کامیابی کی صورت میں اس حوالے سے بھی بات کی جائیگی اگر پولیو پھیلانا اسلامی نقطہء نظر میں درست ہے تو مجھے توقع ہے کہ طالبان قوم کے بچوں سے زیادتی نہیں کرینگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Professer Ibrahim Interview is an interview, and listed in the interviews section of the site. It was published on 15 June 2017 and is famous in interviews category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint interviews.