ٹرمپ کا ابلیسی ذہن اور ہیلری کی جیت؟

بش مسلم کش کی ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امید وار ابلیس صفت ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں مسلمانوں اور عالم اسلام کے حوالے سے ہذیان بکنے کا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ اب اس کی تازہ یاوہ گوئی یہ سامنے آئی ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گیا

جمعہ 29 اپریل 2016

Trump Ka Ibleesi Zehen or Hillary Ki Jeet
محسن فارانی :
بش مسلم کش کی ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امید وار ابلیس صفت ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں مسلمانوں اور عالم اسلام کے حوالے سے ہذیان بکنے کا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ اب اس کی تازہ یاوہ گوئی یہ سامنے آئی ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گیا تو وہ شرقِ اوسط کے تیل کے کنویں تباہ کر دے گا کیونکہ اس کے بقول یہ داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی آمدنی کا بڑاذریعہ ہے۔

یہ ارب پتی تاجر اس سے پہلے ہمیشہ ”تیل پر قبضے“ کا راگ الاپتا رہا ہے مگر 27 مارچ کے نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ انٹرویو میں اس نے برملا کہا ہے کہ دہشت گرد گروہ کے بڑے ذریعہ آمدنی کو ختم کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا :”میں کہتا ہوں کہ ان کے تیل کے کنووٴں کو ان کے لیے بھڑ کتا جہنم بنا دو ۔ امریکہ جب عراق میں تھا تو اسے چاہیے تھا کہ تیل پر قبضہ کر لیتا لیکن اب ہمیں تیل کے کنویں تباہ کرنے ہیں۔

(جاری ہے)

میرے لیے یہ ناقابل یقین ہے کہ ہم ایسا نہیں کر رہے۔“
جوشِ تقریر میں ٹرمپ کے منہ سے سچی بات بھی نکل گئی۔ اس نے کہا” ہمیں کبھی عراق کے معاملے میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا ہمیں اس ملک کو تباہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ “ ٹرمپ نے مزید کہا” صدام حسین ایک بُرا شخص تھا لیکن وہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے میں طاق تھا۔

وہ دہشت گردوں کا اس طرح صفایا کرتا تھا کہ کوئی اورایسا نہ کر سکا۔ اب عراق دہشت گردی کا ہارورڈ (یونیورسٹی) بن چکا ہے۔ آپ دہشت گرد بننا چاہتے ہیں تو سیدھے عراق چلے جائیں۔“ ٹرمپ نے انٹرویو میں مزید کہا کہ ” اگر میں صدر منتخب ہو گیا تو میں سعودی عرب اور دوسرے عرب اتحادیوں سے تیل خریدنا بند کردوں گا کیونکہ وہ داعش سے لڑنے کے لیے اس محاذ پر اپنے فوجی بھیجنے کو تیار نہیں حالانکہ صدر بارک اوباما نے کوشش کی تھی کہ وہ امریکہ کے زیرِ قیادت کولیشن میں شامل ہو جائیں۔


ٹرمپ جرمن نژاد کٹر عیسائی ہے۔ اس کا دادا انیسویں صدی کے اواخر میں امریکہ آبساتھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے متعلق اپنے خبثِ باطن اظہارکرتے ہوئے کہا” اگر امریکہ سعودی عرب سے حفاظتی چھتری ہٹا لے تو اس کانام و نشان نہ رہے۔“ ٹرمپ کا انٹرویو شائع ہونے کے چند گھنٹے بعد اوباما کی آٹوٹاسک فور س کے سربراہ سٹون ریٹز نے ٹویٹ کیا کہ ” ٹرمپ کچھ نہیں جانتا کہ تیل کی منڈی کیسے کام کرتی ہے۔

سعودی عرب جو تیل پیدا کرتا ہے ہم اس کا محض تقریباََ 10فیصد لیتے ہیں۔“ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ شام میں داعش کو شکست دینے کے لیے اس کی سٹرٹیجی کیا ہے تو وہ بولا” دہشت گرد گروہ اور اس ملک کے صدر بشارالاسد دونوں سے بیک وقت لڑنے کی اپروچ پاگل پن اور حماقت ہے ۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے اس سے کہیں بڑا خطرہ داعش ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسد اچھا آدمی ہے لیکن ہمارے لیے بڑا مسئلہ اسد نہیں داعش ہے۔


انٹرویو لینے والے نے جب پوچھا”ٹرمپ کی صدارت میں کسی ملک میں انسانی بنیادوں پر مداخلت کے لیے معیار کیا ہو گا؟ تو اس کا جواب تھا”اس کا انحصار اس پر ہوگا کہ کوئی ملک امریکہ کے بارے میں کس قدر دو ستانہ رویہ رکھتا تھا۔ مجھے دیکھنا ہو گا کہ اس علاقے میں کیا ہو رہا ہے اور آپ محض کمبل اوڑھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔“جب ٹرمپ سے اس کی خارجہ پالیسی کی تجاویز پوچھی گئیں توا س نے کہا ” میں نہیں چاہتا دوسرے ممالک اور اتحادی جان پائیں کہ میری حقیقی سوچ کیا ہے۔

“ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ”وہ امریکہ کو پھر عظیم بنا دے گا“ کیونکہ جزیرہ نما کریمیا (کوکرین) پرروسی قبضے اور امریکہ کو چیلنج کرتے ہوئے ظالم و خونخوار بشار الاسد کی پشتیبانی کے لیے شام میں روسی فوجی مداخلت سے امریکہ کی عظمت کو داغ لگ چکے ہیں۔رائٹر کے نامہ نگار پیٹرا یپس کے بقول ٹرمپ کے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنا دینے کے دعوے کے باوجود اس نے جو خارجہ پالیسی اپنانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اب بیرونی ممالک میں پنگالینے سے بازرہے گا۔ اخبار ” اٹانٹک“ میں اوباما کے حالیہ انٹرویو سے بھی اسی امریکی سوچ کا اظہار ہوتا ہے اورکئی موجودہ اور سابقہ امریکی حکام بھی کہنے لگے ہیں کہ ان کے ملک نے عراق اور افغانستان میں یا کہیں اورکیا تیر مارلیا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن میں کئی تھنک ٹینکس جو خارجہ پالیسی کی تشکیل سے وابستہ ہیں۔

بیبا کی سے بیرونی ممالک میں مداخلت کی حمایت کر ہے ہیں۔ ان تھنک ٹینکس کو فنڈز امریکی اسلحے کے ٹھیکیداروں اور غیر ملکی حکومتوں سے ملتے ہیں جسے خلیجی ممالک ہیں جو امریکیوں کو اس پالیسی پر کاربند رہنے کی راہ سجھاتے رہتے ہیں۔
ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم سے اس کی اس سوچ کا اظہار ہوتا ہے کہ ”باقی دنیا بھاڑ میں جائے کیونکہ تارکین وطن کی مسلسل آمد اور عالمگیریت نے امریکیوں کی ملازمتیں چھین لی ہیں اور ان کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

“ اس کا کہنا ہے ”امریکہ کے کئی اتحادی اس بات پر تکہ کیے ہوئے ہیں کہ امریکہ ان کے دشمنوں کی ٹھکائی کرے اور علاقے میں استحکام کی ذمہ داری لے لیکن اگروہ امریکی دفاعی چھتری کی قیمت ادا نہیں کرتے تو امریکہ کو اپنی فوجیں واپس بلالینی چاہئیں۔“ ٹرمپ نے جنوبی کوریا اور جاپان کو یہ مشورہ تک دے ڈالا ہے کہ انہیں اپنے تحفظ کے لیے اپنے ایٹمی ہتھیار بنا لینے چاہئیں۔

اس کے اس مشور پر جنوبی کوریا کے صحافی ہکا بکا رہ گئے۔ نیٹو کے بارے میں اس کے خیالات بھی ایسے ہی ہیں۔ ادھر امریکی خارجہ پالیسی پر یاک مباحثے میں ”ایٹلانٹک کو نسل“ کے عہدیدار لیکس وارڈ اور اس کے ساتھیوں نے جب نیٹو میں شامل بالٹک ریاستوں کی سلامتی کے مسئلے پر گفتگو کی تو وارڈ کے بقول ملک میں اس کے بعض رشتہ داروں نے یہ کہہ کر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا کہ ”بالٹک ریاستوں‘ سے کیا مراد ہے۔

؟
قارئین کرام واضح رہے کہ شمالی یورپ کے مغرب میں بحراوقیانوس اور بحریہ شمالی کی طرف سے ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان ایک آبنائے داخل ہوئی ہے جو جرمنی اور پولینڈ کے شمال میں کھل کر بحیرہ بالٹک بن جاتی ہے۔ اسی بحریہ بالٹک کے مشرقی جانب تین چھوٹے یورپ ممالک لتھوانیا، لیٹویا اور اسٹونیا واقع ہیں جنہیں بالٹک سٹیٹس کہا جاتا ہے۔ بحیرہ بالٹک کے شمال مشرق میں فن لینڈ ہے ۔

فن لینڈ اور بالٹک سٹیٹس کے درمیان خلیج فن لینڈ ہے جس کے مشرقی کونے پر روس کی واحد بالٹکی بندرگاہ سینٹ پیٹرز برگ واقع ہے۔ زار روس پیٹراعظم سے منسوب یہ شہر صدیوں زار شاہی کا دار الحکومت رہا۔
کمیونسٹ دور (1917-19) میں اس کا نام لینن گراڈ رہا ۔ انیسویں بیسویں صدیوں میں روس بالٹک ریاستوں اور فن لینڈ پر قابض رہا۔ فن لینڈ تو دوسری جنگ عظیم (1939-45 ) کے بعد آزاد ہو گیا مگر بالٹک سٹیٹس نے دسمبر 1991 میں کمیونسٹ روس کی شکست وریخت پر آزادی حاصل کی اور پھر ان تینوں ریاستوں نے امریکہ ونیٹو کی دفاعی چھتری تان لی۔


امریکی نیول وار کالج کے استاد روسی نژاد نکولاس گوسڈیف کہتے ہیں کہ ٹرمپ جیتے یا ہارے اس نے امریکی پالیسیوں کے جن خطوط کی نشاندہی کردی ہے وہ مستقبل میں سیاستدانوں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہوں گے۔ امریکی عوام جنگوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور ان کے لیے ملازمتوں کا میدان بھی تنگ وہ چکا ہے۔ داعش جیسے عسکریت پسندوں کے معاملے میں ٹرمپ اور اوباما کے نقطہ نظر میں اختلاف ہے۔

ٹرمپ منہ پھاڑ کر کہتا ہے کہ وہ واٹر بورڈنگ جیسے سخت تفتیشی حربوں، ٹارچر اور ڈرون بمباری سے کام لے گا جبکہ اوباما شاید گوانتانامو کا بدنام امریکی اڈا تو بند نہ کر سکا مگر وہ ظالمانہ تفتیشی کارروائیوں کے خلاف ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ واشنگٹن پوسٹ سے یہ بھی کہہ چکا ہے کہ اس کے لیے داعش سے لڑنے کے لیے دسیوں ہزاروں فوجی بھیجنا ” بہت مشکل“ ہوگا خواہ سینئر امریکی حکام اس کی درخواست کیوں نہ کریں۔ ٹرمپ نے اسقاطِ حمل کی مخالفت کر کے بیشتر امریکی خواتین کی ناراضی مول لی ہے اوریوں ہیلری کے جیتنے کے امکانات بڑھ گے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Trump Ka Ibleesi Zehen or Hillary Ki Jeet is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 April 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.