شام میں جاری خانہ جنگی، 2014ء میں 76ہزار انسانوں کو نگل گئی

2014ء شامی حزب اختلاف کیلئے شکست اور مایوسی اور صدر بشار الاسد کیلے فائدہ مند ثابت ہوا لیکن اس کی بہت بڑی قیمت شہریوں نے ادا کی۔ حکومت پورا سال نام نہاد جنگ بندی کا پرچار کرتی رہی

پیر 19 جنوری 2015

Syria Main Jari Khana Jangi
رمضان اصغر:
جنوری سنہ 2014میں جینوا میں ہونے والے امن مذاکرات اور جنوری 2015 میں ماسکو متوقع امن بات چیت کے درمیان کے 12ماہ شام میں بغاوت کے آغاز کے بعد سے مہلک ترین وقت ثابت ہوئے ہیں۔ گذشتہ برس اس وقت متوقع امن کانفرنس سے خاصی امیدیں وابستہ تھیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور روس کی حمایت سے ہونے والے جینوا مذاکرات میں شامیوں کو خونریزی کے خاتمے کی پیش کش کی گئی تھی۔

لیکن ایسا ہوا نہیں اور حکومت اور حزب اختلاف کسی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو پائے اور اس بات چیت کے دوران ایک ہزار افراد مارے گئے۔ باقی کے ایک برس میں 70ہزار لوگوں نے جانیں گنوائیں۔ اس وقت کے اقوام متحدہ کے خصوصٰ ایلچی الاخضر براہیمی نے مذاکرات کی ناکامی پر شامی باشندوں سے معافی مانگی تھی اور کچھ ماہ بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔

(جاری ہے)


2014ء شامی حزب اختلاف کیلئے شکست اور مایوسی اور صدر بشار الاسد کیلے فائدہ مند ثابت ہوا لیکن اس کی بہت بڑی قیمت شہریوں نے ادا کی۔

حکومت پورا سال نام نہاد جنگ بندی کا پرچار کرتی رہی جبکہ درپردہ وہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ہتھیار ڈالنے کیلئے فاقہ کشی کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔ قدیم شہر حمص کا محاصرہ تین برس بعد اس وقت ختم کیا گیا جب باغیوں کے ہاتھوں حراست میں لئے گئے ایرانی جنگجوؤں کی رہائی کیلئے معاہدہ ہوا۔ اس محاصرے کے خاتمے کے فورا بعد ہی شمال مغربی قصبے الویر پر حملہ کردیا گیا جہاں ہزاروں بے گھر شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔

دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں میں محاصرے ختم کیے گئے لیکن انہیں بہت جلد دوبارہ گھیرے میں لے لیا گیا۔ دمشق کے جنوبی کنارے پر واقع فلسطینی مہاجرین کیلئے قائم کیمپ بھی ان مقامات میں سے ایک تھا جن کا دوبارہ محاصرہ کیا گیا۔ نومبر میں لندن میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں الخضر براہیمی کا کہنا تھا کہ شامی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کا منصوبہ دراصل جنگ کا منصوبہ تھا نہ کہ امن کا۔

شامی حکومت صرف ایک ہی پیغام دینا چاہتی ہے اور وہ یہ کہ جیت طاقت کی ہوگی اور سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے صدر بشار الاسد کے اقتدار کی بقا ایران اور روس کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ایسے میں جب بشار الاسد کی حکومت خود کو فاتح سمجھتے ہوئے شامل کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، وہاں ایک تیسری قوت سر اٹھا رہی ہے جو حکومت اور باغیوں دونوں کو ہی اپنا دشمن مانتی ہے۔

یہ قوت دولتِ اسلامیہ ہے، جس نے شامل اور عراق میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں خلافت کا اعلان کررکھا ہے۔ دولتِ اسلامیہ کا عروج شامی انقلابیوں کیلئے دوسری شکست ہے جو آزادی اور جمہوریت کے حامی ہیں کیونکہ اب انہیں دو محاذوں پر لڑنا ہوگا۔
دولتِ اسلامیہ چاہتی ہے کہ سنہ 1916میں قائم کی گئی سرحدی حدود کا خاتمہ کردیا جائے۔ گو کہ ان جہادیوں نے 2013ء کے اوائل میں ہی حکومت کا للکارا تھا تاہم حکومت اب تک ان کے گڑھ الرقہ میں بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔

دولتِ اسلامیہ کی جانب سے تین یرغمالیوں کے سر قلم کئے جانے کے بعد امریکی قیادت میں عالمی فورسز نے ماہ ستمبر میں دولتِ اسلامیہ کے بعض ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے تھے۔ اس وقت تک دولتِ اسلامیہ سینکڑوں شامی باشندوں کے سر قلم کر رچکی تھی۔ دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی حملوں میں بشار الاسد کی فورسز نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں 600فضائی حملے اور بیرل بم حملے کئے۔

ان حملوں کا شکار ہونے الی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ سال کا اختتام عالمی ادارہ خوراک کے اس اعلان کے ساتھ ہوا جس کے مطابق اس نے فنڈز کی کمی کے باعث اردن، لبنان، ترکی، عراق اور مصر میں شامی باشندوں کیلئے خوراک کی فراہمی معطل کردی۔ گو کہ بعد ازاں رقم ملنے پر یہ امداد بحال کردی گئی لیکن اس سے یہ بات اجاگر ہوگئی کہ شام کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کس طرح ناکام ہورہی ہے، حتیٰ کہ انسانی امداد کے معاملے میں بھی اس واقعے سے ان شبہات میں بھی اضافہ ہوا کہ عالمی برادری شامی کی جنگ کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔

اب دنیا کی نظر شام کیلئے نئے امن منصوبے پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک کار آمد ثابت ہوتا ہے لیکن اس کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ بشارالاسد کی فوجیں اور باغی آپس میں کتنا تعاون کرتے ہیں۔ رواں ماہ کے اختتام پر روس ایک اجلاس کی میزبانی کررہا ہے جس میں شامی حکومت اور حزب اختلاف کے بعض ارکان شرکت کریں گے۔ تاہم ناقدین ان بے نتیجہ کاوشوں کو محض وقت گزاری قرار دے رہے ہیں۔

اس سارے عرصے میں ایک عام شامی باشندہ ہمت، یقین اور امید کھو چکا ہے ۔ اب اس کا مقصد یورپ کا ویزا حاصل کرنا یا کشتی کا غیر قانونی خطرناک سفر رہ گیا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے مخالف گروہوں نے سنہ 2011میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کے مطالبے کے ساتھ تحریک شروع کی تھی۔ حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سہ 2014 میں شام میں جاری جنگ کے دوران 76ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور یہ تنازع کے چار برسوں میں سب سے خونی اور مہلک سال تھا۔

شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم دی سیریئن آبزرویٹر فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں تقریباََ 25فیصد عام شہری ہیں۔ تنظیم کے مطابق سنہ 2014 میں سنہ 2013سے ڈحائی ہزار زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور شام میں سنہ 2011سے اب تک خانہ جنگی کے دوران مرنے والوں کی کل تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ برس شام میں جو 17790عام شہری مارے گئے ان میں سے ساڑھے تین ہزار بچے تھے۔

ان کے علاوہ 22ہزار سے زیادہ سرکاری فوجی اور حکومت حمایت یافتہ ملیشیا کے ارکان، دولت اسلامیہ اور نصرہ فرنٹ جیسے شدت پسند گروہوں نے تقریباََ 17ہزار جنگجو، جبکہ 15ہزار باغی جنگجو بھی ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔ ان اعدادوشمار کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکی ہے لیکن سیریئن آبزر ویٹر فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس نے یہ ادعاد و شمار شام کے تمام علاقوں میں موجود اپنے ذرائع سے اکٹھے کئے ہیں۔

شام میں خانہ جنگی نے 30لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر بھی کیا ہے اور یہ لوگ جنگ سے بچنے کیلئے یا تو ملک کے دیگر علاقوں میں گئے ہیں یا پھر سرحد پار کر کے ہمسایہ ممالک میں پناہ گزیں ہیں۔ شام میں ہر روز گھر چھوڑنے پر جمبور لوگوں کی تعداد دوسرے عالمی جنگ میں پیش آئے پناہ گزینوں کے بحران کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2012کے آغاز سے ہی شام کے پڑوسی ممالک میں شامی پناہ گزینوں کا سیلاب آگیا تھا۔

شامل میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے مخالف گروہوں نے 2011ء میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کے مطالبے کے ساتھ تحریک شروع کی تھی اور یہی جدوجہد اب پھیل کر خانہ جنگی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کرد جنگجوؤں نے شمالی شام میں واقع کوبانی کے ایک اہم علاقے کے 80فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ کرد جنگجوؤں نے یہ علاقے دولت اسلامیہ سے حاصل کیا ہے۔

کرد جنگجوؤں نے عراقی پیش مرگا فورسزکے ہمارہ سکیورٹی ضلعے کے 80فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے جس میں پولیس ہیڈ کوارٹر بھی شامل ہے۔ دولت اسلامیہ نے اس علاقے پر ستمبر میں حملہ کیا تھا اور جلد ہی اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ برطانیہ میں قائم دی آبزر ویٹری جو شامل میں جاری جنگ پر نظر رکھے ہوئے ہے کہا کہنا ہے کہ کرد جنگجوؤں نے شدید لڑائی کے بعد علاقے پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔

کوہانی میں موجود سرکاری اہلکار ادریس نسانی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کوہانی کے اہم ضلعے کے 80فیصد علاقے کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے چھڑالیا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کوہانی کے دو مشرقی اضلاع ر دولت اسلامیہ کا اب بھی قبضہ ہے۔ امید ہے کہ آئندہ چند روز میں مشرقی اضلاع بھی دولتِ اسلامیہ سے آزاد کرالئے جائیں گے۔ کرد جنگجوؤں کی پیش قدمی میں تیزی آئی ہے اور فضائی حملے بھی تیز کردئیے گئے ہیں۔

کوہانی میں لڑائی کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک اور تقریباََ دو لاکھ سے زائد افراد ترکی میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ امریکی کی سربراہی میں اتحادی فورسز کی فضائیہ کرد فورسز کی مدد کرتی ہے جو کوہانی میں دولت اسلامیہ کے کلاف لڑر ہے ہیں۔ ترکی نے عراق سے تعلق رکھنے والے بعض کرد جنگجوؤں کو ترک علاقے سے گزر کر کوہانی میں کرد سکیورٹی فورسز کی مدد کرنے کیلئے جانے کی اجازت دی ہے۔


اقوام متحدہ نے لبنان کی جانب سے شام میں جاری خانہ جنگی سے فرار ہو کر لبنان میں پناہ لینے والے شامی شہریوں کے داخلے کو مزید سخت کرنے کی غرض سے نئی پابندیاں عائد کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ چاہتا ہے کہ لبنان کی حکومت سب سے غیر محفوظ مہاجرین کی لبنان تک رسائی کے حوالے سے وضاحت کرے۔ اس سے قبل لبنان اور شامل کے درمیان سفر پر کوئی خاص پابندی نہیں تھی لیکن اب لبنان میں داخل ہونے کیلئے شامی شہریوں کو ویزا لینا پڑے گا۔

شامل میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے لبنان میں دس لاکھ سے زائد شامی شہریوں نے پناہ حاصل کررکھی ہے تاہم اب ایک سینئیر وزیر کا کہنا ہے کہ لبنان میں مزید شامیوں کو پناہ دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ لبنان کے وزیر داخلہ نوہاد مشنوک نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس پہلے ہی بہت زیادہ پناہ گزین ہیں اور مزید پناہ گزینوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

کئی پناہ گزینوں کو کیچڑ اور برف سے اٹھے ہوئے عارضی خیموں یا کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے۔ خیال رہے کہ لبنان نے شامل میں جاری خانہ جنگی سے فرار ہوکر لبنان میں پناہ لینے والے شامی شہریوں کے داخلے کو مزید سخت کرنے کیلئے پیر کو نئی پابندیوں عائد کی تھی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ نئی پابندیوں کا اطلاق ان شامیوں پر کیسے کیا جائے گا جو پہلے سے ہی لبنان میں موجود ہیں لیکن انہوں نے اپنا اندراج بطور پناہ گزین نہیں کرایا ہے۔

پہلے کوئی بھی شامی شہری بلا روک ٹوک چھ ماہ تک لبنان میں قیام کرسکتا تھا لیکن نئی پابندیوں کے بعد لبنان میں داخلے کے خواہشمند کسی بھی شامی کیلئے ویزا حاصل کرنے کیلئے کچھ لوازمات کا پورا کرنا ضروری ہوگا۔ لبنان کے وزیر داخلہ کے ایک مشیر خلیل جبارا نے بی بی سی کو بتایا کہ اب پناہ گزینوں کو صرف بہت محدود اور غیر معمولی مقدمات کے تحت لبنان آنے کی اجازت دی جائے گی۔


لبنان کے قانون سازی سے متعلق ادارے کے ایک رکن باسم شاب نے بتایا کہ حکومت شامی پناہ گزینوں کی کفالت کیلئے جو کرسکتی تھی کرچکی ہے۔ واضح رہے کہ لبنان میں موجود شامیوں کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ ہے ۔ اس وقت لبنان میں سرکاری طور پررجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں کی تعداد 11لاکھ ہے جبکہ اندازہ ہے کہ اس کے علاوہ تقریباََ پانچ لاکھ ایسے شامی بھی لبنان میں موجود ہیں جنہوں نے اپنا اندراج نہیں کرایا۔

ان اعدادوشمار کا مطلب یہ ہے کہ لبنان جیسے چھوٹے ملک کی آبادی میں ہر تیسرا شخص شامی باشندہ ہے۔ لبنان میں مکانوں کے کرائے بڑھ چکے ہیں، اجرتیں کم ہوچکی ہے اور یہاں پہنچنے والے شامی پناہ گزین ایک کمرے میں دس سے پندرہ تک کی تعداد میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اگر وہ ان تنگ کمروں میں نہیں رہتے تو انہیں کیچڑ اور برف سے اٹے ہوئے عارضی خیموں یا کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے لبنان میں شامی پناہ گزینوں کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوچکا ہے اور کچھ دیہاتوں اور قصبوں میں مقامی لوگوں نے پہرے لگا کر شامیوں کے داخلے پر کرفیوں لگادیا ہے۔ لبنان میں شامی پناہ گزینوں کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اس میں سب سے بڑھ کر یہ کہ لبنانیوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ خوف ہے کہ ان کے ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ توازن تبدیل ہورہا ہے جو کہ آخر کار لبنان میں ایک نئی خانہ جنگی کا سبب بن سکتا ہے۔

نئی سختیوں کے بعد لبنان میں داخل ہونے کے خواہش مند ہر شامی کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ لبنان میں داخل ہونے کی وجہ بتائے اور اگر اسے ویزا دیا جائے گا تو وہ بھی ایک مقررہ مدت کیلئے ہوگا۔ اس کے علاوہ کام یا مزدوری کی غرض سے آنے والے شامیوں کیلئے ضروری ہوگا کہ ان کے اس کسی لبنانی شہری یا کمپنی کی جانب سے منظوری یا سپانسر شپ بھی موجود ہو۔ لبنان میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان رون ریڈ مونڈ ک اکہنا ہے کہ لبنان نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے ان شامیوں کی تعداد میں خاصی کمی ہوچکی ہے جو بطور پناہ گزین لبنان میں داخلے کے خواہشمند ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ نے لبنان کی حکومت کے اشتراک سے ایک ایسا نظام ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت ایسے شامیوں کولبنان میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاتا جو واقعی حالات سے مجبور ہوچکے ہیں۔ حکومت کاکہناہے کہ شدید انسانی بحران میں مبتلا شامیوں کو لبنان میں داخل ہونے دیا جائے گا لیکن گزشتہ چند دنوں سے لبنان نے جن نئی پابندیون کا اعلان کیا ہے ان میں ہمیں ایسے شامیوں کیلئے رعایت دکھائی نہیں دیتی۔

ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر کوئی ایسا اعلان کیا جائے جس میں وضاحت کی جائے کہ نیا نظام کیسے کام کرے گا تاکہ ہم یہ یقینی بنا سکیں کہ ایسے پناہ گزین جو واقعی لبنان جانے پر مجبور ہوچکے ہیں، وہ اس نئے نظام سے متاثر نہ ہوں۔ لبنان کی حکومت کہتی ہے کہ وہ جلد ہی نئی پابندیوں کی وضاحت کردے گی، ہم اسی چیز کا انتظار کررہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ایسا ہوگا۔

شام میں القاعدہ سے منسلک شدت پسند گروپ النصرہ فرنٹ نے صوبہ ادلیب میں واقع ایک اہم فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا ہے۔ شام کے مسئلے پرنظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق النصرہ فرنٹ کے جنگجوؤں نے اتوار کو شروع ہونے والی شدید لڑائی کے بعد شمالی صوبے ادلیب میں واقع وادی الدیف فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا ہے۔ تاہم شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے صرف اتنی معلومات دی ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے علاقے میں کئی شدت پسندوں کو ہلاک کردیا ہے۔

حقوق انسانی کے ایک گروپ کے مطابق لڑائی میں کم از کم 31فوجی اور 12باغی بھی مارے گئے ہیں تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ اس فوجی اڈے کا شدت پسندوں نے سال 2012ء سے محاصرہ کررکھا تھا اور سرکاری سیکیورٹی فورسز نے کئی حملوں کو پسپا کیا تھا۔ النصرہ کے ٹوئٹر اکائنٹ پر تصدیق کی گئی کہ پیر کو فوجی اڈے پر مکمل قبضہ کرلیا گیاہے اور اب وہاں نصب بارودی سرنگوں کو ہٹایا جارہا ہے۔

برطانیہ سے شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزر ویٹر فار ہیومن رائٹس کاکہنا ہے کہ اطلاعات کے مطابق فوجی اڈے کے ولاوہ قریبی علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا گیاہ ے۔ اس فوجی اڈے پر قبضے سے پہلے النصرہ فرنٹ کے شدت پسندوں نے اس کے اطراف پر واقع سات فوجی چیک پوسٹوں اور قریبی فوجی اڈے حمیدیہ پر قبضہ کررکھا تھا۔ سیریئن آبزر ویٹری کے مطابق شدت پسند گروپ نے فوجی اڈے پر حملے میں ٹینکوں اور بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا اور یہ ہتھیار اس نے گزشتہ ماہ مغرب کی حمایت یا فتہ باغی تنظیم ایس آر ایف یا سیریئن ریولوشنری فرنٹ سے چھینے تھے۔

ایس آر ایف کی شام میں شکست مغرب کیلئے شدت پسند تنظیموں کے خلاف کوششوں کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے اور اس کے برعکس شام میں شدت پسند تنظیمیں النصرہ فرنٹ اور اس کی حریف تنظیم دولت اسلامیہ شام اور عراق کے کئی حصوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ شام میں سال 2011سے صدر بشار الاسد کے خلاف جاری بغاوت کے دوران اب تک دو لاکھ افراد مارے جاچکے ہیں۔ جبکہ 32لاکھ کے قریب اندرون ملک سے نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

شام کے کئی علاقوں پر قابض شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد کئی ہفتوں سے فضائی کارروائیاں کررہا ہے۔ داعش نے شام کے شہر رقا میں میڈیکل کالج قائم کردیا ہے جس میں باقاعدہ کلاسوں کا آغاز بھی ہوگیا ہے داعش کی کارروائیوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے اور ان کے جنگجوؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Syria Main Jari Khana Jangi is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 January 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.