سیکولر بھارت

جہاں مودی ہندو ازم کو فروغ دے رہے ہیں کوئی بھی چیز نریندر مودی کا اتنا بیزار نہیں کرتی جتنا عوام میں اندراگاندھی کے گن گانے والے کی تصویر کشی سے اظہار کرتے ہیں۔ مودی مئی 2014 میں بھارتی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ وہ نہروگاندھی وراثت کو بھارتی عوام کے مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں

بدھ 18 مئی 2016

Secular Baharat
کرشنا رامائن:
کوئی بھی چیز نریندر مودی کا اتنا بیزار نہیں کرتی جتنا عوام میں اندراگاندھی کے گن گانے والے کی تصویر کشی سے اظہار کرتے ہیں۔ مودی مئی 2014 میں بھارتی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ وہ نہروگاندھی وراثت کو بھارتی عوام کے مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں اور وہ شاذونادر ہی اس پر بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے لیکن مودی کے عملی اقدامات اندراگاندھی کی ہو بہو کاپی ہیں اور وہ ان کے نقش پاپر چل کر انہی کی روایات کو دوہرارہے ہیں۔


کانگریس پارٹی کی آئیکون آئرن لیڈی اندرا گاندھی کے بارے میں ان کے اقدامات ایک سراغ بھی مہیا کرتے ہیں کہ کس طرح وہ خود کو ان کے سانچے میں ڈھا چکے ہیں۔ اس مماثلت نے ایک سیاسی تجزیہ دار کو انہیں ”مسز گاندھی“ قرار دینے پر مجبور کیا۔

(جاری ہے)


یہ محض مودی ہی نہیں تھے سابق بی جے پی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی اندراگاندھی کو درگاہ دیوی قرار دیا کرتے تھے۔

1971 کی پاکستان اور بھارت جنگ کے حوالے سے وہ اندراگاندھی کے مذموم کردار کو بہت سراہتے تھے۔ اندراگاندھی کی طرح وہ تحکم پسند مشہور ہیں۔ بی جے پی جیسی انتہائی پسند جماعت پر ان کا مکمل غلبہ اسکی تصدیق کے لیے کافی ہے۔
حالیہ دنوں میں مودی نے اروناچل پردیش میں ریاستی حکومت کو معطل اور اتر کھنڈی میں انجینئرڈیفکیشن کے ذریعے حکمران کانگریس کی چھٹی کرا کر اندراگاندھی کی ریاستی حکومت ختم کرنے کی یاد تازہ کر دی۔

ہو پچھلی صدی کی کانگریس کی اس مشق کے جواز کو دوست ثابت نہیں کرسکتے۔ بھارتی سپریم کورٹ 1994 میں اس پر بہت واضح فیصلہ دے چکی ہے جس میں کہاگیا تھا کہ حکومتی اکثریت کے پیمانے کو ریاستی پارلیمنٹ میں ہی ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے جبکہ مودی کی وفاقی حکومت نے آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اتر کھنڈ حکومت کے لیے پارلیمنٹ کا فلور استعمال نہیں کیا۔

اسی طرح کا غیر پوپولر فیصلہ واجپائی نے 1990 میں بہار کی رابڑی دیوی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کر کے کیا تھا مگر عدالتی حکم پر اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔
کانگریس کی ریاستی حکومت کی معزولی کیخلاف پٹیشن سننے والی اترکھنڈ ہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس میں دہلی حکومت پرایسے فیصلوں کے ذریعے جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کا الزام عائد کیا ۔عدالت نے معمولی وجوہ کی بنا پر نئے انتخابات مسترد کر دئیے تھے۔

اسی طرح کافیصلہ سپریم کورٹ نے بی جے پی کے اروناچل میں آمرانہ اقدام کیخلاف دیا تھا جہاں وہ ایمرجنسی تک چلی گئی تھی۔
دو سال قبل مودی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو ملک میں آئین کی بالا دستی کا عندیہ دیا تھا لیکن اپوزیشن ریاستی حکومتوں کو معزو کرنا بی جے پی حکومت کی تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے جو اس نے اپوزیشن کی ریاستی حکومتوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے۔

پارلیمنٹ بذات خود ز عفرانی بالادستی نعرے لگانے والی جماعت کے حملوں کی زد میں آچکی ہے اور اس کی اکثریت ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اپوزیشن کی تنقید کو برداشت نہیں کرتی۔ پچھلے دو سالوں میں بھارتی حکومت کو آمرانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کی تنقید پر مودی نے تھوڑا سٹائل ضرور بدلہ ہے جو انہوں نے اپنی تین ٹرم کے دوران گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنایا تھا مگر اب بھی وہ بھارتی حکومت کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر چلا رہے ہیں۔


میڈیا یا پارلیمنٹ کی تنقید پر مودی اسے وزن دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں ہیں۔ بلکہ لا تعلقی ظاہر کرتے ہیں۔ مودی بہت کم بولتے ہیں حتیٰ کہ اقلیتوں پر بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہوں ان کی زبان گنگ رہتی ہے۔ ملک میں بدترین پانی کے بحران پر بھی وہ خاموش ہیں جس کی وجہ سے کسان خود کشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔
یہ چیزیں مودی کے لیے سخت پریشانی کا باعث ہے مگر وہ اپنے ذاتی ایجنڈے پر فوکس ہیں۔ وہ لبرل سیکولر جمہوریت کے بجائے بھارت کو دہندو راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایجنڈے پر ڈھالنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Secular Baharat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 May 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.