روسی ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ

کیا روس اپنا کھویا مقام حاصل کر پائے گا؟ روس جسے سابق سوویت یونین کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے۔ یہ ماضی میں دنیا کی سپر پاور تھی۔ امریکہ اور روس میں باہمی مخاصمت اور سرد جنگ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

جمعرات 31 دسمبر 2015

Roosi Hathiyaron Ki Maang Main Izafa
روس جسے سابق سوویت یونین کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے۔ یہ ماضی میں دنیا کی سپر پاور تھی۔ امریکہ اور روس میں باہمی مخاصمت اور سرد جنگ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ دنیا کی سابق سپر پاور کو افغانستان جنگ میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو سوویت یونین کا شیرازہ بھی بکھر گیا۔ اس کے بعد امریکہ سپرپاور بن کر دنیا پر حکمرانی کرنے لگا۔

افغانستان جنگ نے روس کا دیوالیہ نکال کر رکھ دیا تھا۔ صدر پیوٹن اپنے انقلابی اقدامات کے باعث روس کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلوانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی نسبت روسی ساخت اسلحہ کی طلب اور فروخت میں اضافہ ہو رہاہے ہے۔سٹاکہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ مرتب کی ہے۔

(جاری ہے)

اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ 2014 میں دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے 401 ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کئے ۔ یورپ اور امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیاں اس مارکیٹ 80 فیصد حصہ رکھتی ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اسلحہ کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 36 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ہتھیاروں کی فروخت میں 25فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس میں سے 50 فیصد حصہ روسی کمپنیوں کا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روسی کمپنیاں اپنے معیار پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ دوسرے ممالک کو اسلحہ ایکسپورٹ کرنے کے لیے بھاری مقدار میں اسلحہ تیار کر رہی ہیں۔ 11روسی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ریونیو میں 48 فیصد اضافہ ہوا۔ روسی کمپنی الماز نیٹے اس فہرست میں گیارہویں نمبر پر ہے۔

اس کا سالانہ ٹرن اوور 8.84 ارب ڈالر تھا۔یہ کمپنی بک (BUK) میزائل تیار کرتی ہے۔ جس کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ گزشتہ برس 2014 میں یوکرائن میں ملائشیا کابوئنگ 777 طیارہ اسی میزائل سے گرایا گیا تھا۔ روس جن ممالک کو اسلحہ فراہم کر رہاہے ، ان میں بھارت اور چین بھی شامل ہیں۔یہ دونوں ممالک ہتھیاروں کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ روس گزشتہ کئی دہائیوں سے شام کو ہتھیار فروخت کرتا چلا آرہا ہے، لیکن اب وہ دمشق کو بہت تھوڑی مقدار میں ہتھیار مہیا کر رہا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ شام میں گزشتہ کئی سالوں سے خانہ جنگی کا دوردورہ ہے۔ اس لیے شام کے پاس اب اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ روس سے بھاری مقدار میں اسلحہ حاصل کر سکے۔ اس حوالے سے وہ روس کا یہ واضح کہنا ہے کہ اگر شام نقد قیمت ادا کرے گا تو اسے ہتھیار دیئے جائیں گے۔ ترکی کی وہ کمپنیاں بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ گزشتہ برس ایک کمپنی کی مصنوعات کی فروخت میں 5.6 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا۔

دوسری کمپنی ترکش ائیروپیس انڈسٹری (TAI) وہ اس فہرست میں 89نمبر ہے۔ اس کی مصنوعات کی فروخت کی شرح 15.1 فیصد ہے۔ ترکی ہتھیاروں کی تیاری میں خود انحصاری حاصل کر رہا ہے۔جنوبی کوریا کی کمپنی ہنڈائی حال ہی میں 100 کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہوئی ہے۔ 2013 میں اس کی مصنوعات کی فروخت 430 ملین ڈالر تھی جو 2014 میں 770 تک پہنچ چکی ہے۔ روس کے ہتھیاروں کی طلب اور فروخت میں اضافے میں دو چیزوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

اول روس جدید ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے عالمی معیار کے ہتھیار بنانے میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان ہتھیاروں کو فروخت کرنے کے لیے نئی مارکیٹ کی تلاش اور جستجو کر رہا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرقی یوکرائن میں جاری تصادم اور شورش زدگی کے باعث اس کے ہتھیاروں کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یوکرائن کمپنی یوکروبورن پروم جس کی پوزیشن اس فہرست میں 58 نمبر پر تھی ۔

یہ 90 نمبر پر آچکی ہے ۔ اس کی شرح فروخت میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ موٹریک ایک یوکرائن کمپنی ہے جو 2013 میں ٹاپ 100 کمپنیوں میں شامل تھی۔یہ لسٹ سے باہر جا چکی ے ۔ ان حالات اور وجوہات کے باعث روسی ساختہ اسلحہ کی طلب میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور روسی کمپنیاں اسلحہ سازی کی صنعت میں اپنے قدم دوبارہ سے جما رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی جبکہ روسی ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہو رہاہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Roosi Hathiyaron Ki Maang Main Izafa is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 December 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.