بنگلہ دیش کی داخلی صورتحال اور پاکستان پر الزام تراشی

26 نومبر2008 ء کو ممبئی میں ہوٹلوں پر ہونیوالا حملہ بھی موضوع میں شامل تھا۔ تاہم سی این این کی طرف سے بار بار ایک ہی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے تو وہاں اسلامی انتہا پسند کیسے پہنچ گئے؟یہ بڑا عجیب سا سوال تھا

ہفتہ 16 جولائی 2016

Bangladesh Ki Dakhli Sorat e Hall
خالد بیگ:
یکم جولائی کی شب 6 مسلح دہشتگردوں نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے سفارتی علاقے کے مصروف ریسٹورنٹ ”ہولی آرٹیشن بیکری“ پر حملہ کردیا۔ غیر ملکی سفارت کاروں اور ڈھاکہ کی اشرافیہ میں مقبول اس ریسٹورنٹ میں حملے کے وقت 30 سے زیادہ افراد موجود تھے جن کی اکثریت غیر ملکیوں پر مشتمل تھی۔ حملے کا آغاز ہوا تو خبر پوری دنیا کے الیکٹرانک میڈیا کیلئے ”بریکنگ نیوز“ بن گئی۔

پاکستانی ٹی وی چینلوں نے دیگر عالمی نشریاتی اداروں کی طرح خبر نشر کرنے کے بعد اپنی معمول کی نشریات جاری رکھیں۔ البتہ ”ٹکرز“ کے ذریعے تازہ ترین صورتحال سے ناظرین کو آگاہ رکھا جا تا رہا۔ لیکن سی این این نے دیگر تمام نشریات روک کر ساری رات اپنی توجہ صرف ڈھاکہ میں جاری صورتحال پر مبذول رکھی جو کہ انتہائی حیران کن ہے۔

(جاری ہے)

ساری رات حملے کے حوالے سے سابق امریکی سفارتکاروں ‘ دفاعی تجزیہ نگاروں اور دہشتگردی کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ لکھاریوں سے تبصرے کرائے جاتے رہے۔

26 نومبر2008 ء کو ممبئی میں ہوٹلوں پر ہونیوالا حملہ بھی موضوع میں شامل تھا۔ تاہم سی این این کی طرف سے بار بار ایک ہی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے تو وہاں اسلامی انتہا پسند کیسے پہنچ گئے؟یہ بڑا عجیب سا سوال تھا لیکن اس دوران بھارتی چینل این ڈی ٹی وی نے حسینہ واجد کے مشیر گوہر رضوی کے حوالے سے خبر نشر کردی کہ حملے میں آئی ایس آئی ملوث ہے۔


بعد ازاں وزیراعظم بنگلہ دیش کے ایک اور مشیر حسن توفیق نے اپنے وزیر خارجہ کے بیان کی ان الفاظ میں توثیق کر دی کہ ”آئی ایس آئی بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کو کمزور کرنے اور گرانے کیلئے جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کی سرپرستی کر رہی ہے“ اس انداز بیان کا پاکستان کو موردالزام ٹھہرانے کے علاوہ اور کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے اقتدار کی ساری عمارت پاکستان و اسلام سے نفرت کی بنیاد پر کھڑی ہے جسے بھارت سرکار سہارا دئے ہوئے ہے۔


اب آئیے اس نقطے کی جانب جس کی طرف راقم قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہے تاکہ بنگلہ دیش کی صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ 26 اپریل 2006 ء کو بھارتی خفیہ ادارے کے سربراہ اجیت کمار دول نے بھارتی آن لائن نیوز ایجنسی REDIFF.com کی نمائندہ شیلا بھٹ کو بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ اجیت دول 2001 ء میں تبلیغی جماعت کے ڈھاکہ کے عالمی اجتماع کو لیکر فکرمند تھا۔

اس نے بتایا کہ ”حج کے بعد مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا مذہبی اجتماع تھا جس میں محتاط اندازے کیمطابق چالیس لاکھ سے زیادہ مسلمان اکٹھے ہوئے۔ اجتماع میں بھارت سے بھی لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی جو سب بنا ویزے یا قانونی دستاویزات کے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے اور اسی طرح واپس آئے۔ تبلیغی اجتماع میں کی جانیوالی تقریروں سے لگتا تھا کہ جیسے یہ سارا اہتمام بھارت کی مخالفت یا بھارت کو برا بھلا کہنے کیلئے کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش کے سرکردہ سیاستدان ،وزراء، وزیراعظم، آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تک اس اختتامی تقریب میں موجود تھے۔ اجیت کمار دول نے مزید بتایا کہ ”دو کروڑ بنگلہ دیشی شہری بھارت میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر ہیں ‘ بنگلہ دیش کی کوئی حکومت بھی انہیں واپس قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان بنگلہ دیشی شہریوں کی سرحد کے آرپار آمدورفت جاری رہتی ہے جو کہ بھارت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

پاکستانی آئی ایس آئی بنگلہ دیش کے راستے بھارت میں تخریب کاری کیلئے اپنے 2 ایجنٹ بھی داخل نہیں کر سکتی لیکن بنگلہ دیشی شہریوں کو خصوصاً وہ جن کو بارڈر کے آرپار آمدورفت کے طریقہ کار کا علم ہے انہیں اپنا ایجنٹ بنا کر آئی ایس آئی 2 ہزار بندے بھی داخل کر سکتی ہے جس کا ایک ہی حل ہے کہ آئی ایس آئی کو بنگلہ دیش میں قدم جمانے سے روکا جائے“ اجیت کمار دودل کے خیالات سے آگاہی کے بعد اب ذرا بنگلہ دیش کی داخلی صورتحال پر غور کیجئے کہ وہاں کس طرح حسینہ واجد کے اقتدار کی راہ ہموار کی گئی اس نے برسراقتدار آنے کے بعد کس طرح 1971 کے حوالے سے جنگی جرائم کا عالمی ٹریبونل قائم کر کے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماوٴں پر نہ صرف مقدمات قائم کئے بلکہ عمر رسیدہ بزرگ ملزمان کو صفائی کا موقع دیئے بغیر موت کی سزا سنا کر فوری طور پر پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا۔

عالمی سطح پر نائن الیون کے بعد چھائے اسلامی فوبیا کی آڑ میں اسلام پسندوں کیخلاف کارروائی کی آڑ میں صرف جماعت اسلامی سے وابستہ افراد ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو بھی پھانسیاں دی جانے لگیں اور ہر اس آواز کا گلا گھونٹنے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا جو عوامی لیگ کے اقتدار کیلئے خطرہ ہو سکتی ہے۔ بھارت کو بنگلہ دیش پر کنٹرول درکار تھا اور حسینہ واجد کو عوامی لیگ کا دائمی اقتدار۔

بھارت نے بنگلہ دیش میں اسلام کو بھارت کیلئے خطرہ اور اسلام پسندوں کو پاکستان اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا۔ حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کے دوام کیلئے بھارت کو مشرقی سات عدد بھارتی ریاستوں تک آسان رسائی کیلئے بنگلہ دیش کے اندر سے راستے فراہم کر دئے جسکی خواہش بھارت 1947 ء سے کرتا چلا آرہا تھا اور بھارت کا احسان مند ہونے کے باوجود شیخ مجیب الرحمان بھی 1971 ء کے بعد بنگلہ دیش کا اقتدار ملنے کے باوجود اس کیلئے تیار نہیں تھا۔

حسینہ واجد یک جماعتی نظام قائم کرنا چاہتی ہے جس کیلئے وہ پاکستان اور اسلام کیخلاف نفرت کوہوا دے رہی ہے لیکن اس نے یہ تاریخی حقیقت فراموش کر دی ہے کہ دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کی بنیاد ڈھاکہ ہی میں رکھی گئی تھی۔ یہ سیاسی گھٹن ہی ہے جو داعش جیسی انسانیت کش جماعت کو بنگلہ دیش میں قدم جمانے کا موقع فراہم کر رہی ہے جسکے تدارک کیلئے اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ بنگلہ دیش کی داخلی صورتحال کی طرف فوری توجہ دے اور پاکستانی عوام انتظار کرے کہ حسینہ واجد کب حالیہ دہشتگردی کا الزام پاکستان پر لگاتی ہے کیونکہ ”اجمل قصاب“ کی طرح زندہ گرفتار کرنے کا اعلان خود حسینہ واجد نے اپنے قومی خطاب میں کرچکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bangladesh Ki Dakhli Sorat e Hall is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 July 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.