بھارت انسانیت کا دشمن ہے دوست نہیں

اسی برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی لیکن انکا رویہ ہندو سمیت تمام اقلیتوں کیساتھ رواداری کا رہا۔ اگر مسلم حکمرانوں کی سوچ وہی ہوتی جس کا اظہار گزشتہ 68سال سے بھارت میں ہو رہا تھا تو شاید آج ہندو مذہب رکھنے والے لوگ ختم ہو چکے ہوتے

بدھ 27 اپریل 2016

Baharat Insaniyat Ka Dushman Hai
محمد صادق جرال:
اسی برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی لیکن انکا رویہ ہندو سمیت تمام اقلیتوں کیساتھ رواداری کا رہا۔ اگر مسلم حکمرانوں کی سوچ وہی ہوتی جس کا اظہار گزشتہ 68سال سے بھارت میں ہو رہا تھا تو شاید آج ہندو مذہب رکھنے والے لوگ ختم ہو چکے ہوتے لیکن مسلم حکمرانوں نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا۔ ادھر تقسیم کے اعلان کیساتھ ہی ہندوؤں کا جو طرز عمل سامنے آیااس نے ثابت کر دیا کہ یہ تنگ دل اور تنگ نظر لوگ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وہ سبق پھر سے یاد دلا دیا جو ہم بھولتے جارہے تھے کہ علامہ اقبال ، قائد اعظم، سرسید احمد خان اور تحریک پاکستان کے کئی رہنماؤں نے جو دو قومی نظریہ پیش کیا وہ سو فیصد درست تھا۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال نے پاکستان قائم ہونے سے سترہ سال پہلے الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ انکی آنکھیں ایک مسلم ریاست کا نقشہ دیکھ رہی ہیں۔

علامہ اقبال اس نتیجے پر اسی لئے پہنچے تھے کہ وہ ہندو ذہنیت سے اچھی طرح آشنا تھے اور انہیں بخوبی علم تھا کہ اگر انگریز کے نکل جانے کے بعد ہندوستان کی حکمرانی ہندوؤں کو مل گئی تو مسلمانوں پر کیا گزرے گی۔ قائد اعظم کو ابتدا میں کچھ خوش گمانی ضرور تھی جب وہ کانگریس کا ساتھ دے رہے تھے لیکن ہندو کے متعصب رویے نے جلد ہی انہیں اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔

پھر جب کہا گیا کہ ہندوستان میں ایک قوم بستی ہے تو قائد اعظم نے پوری قوت کیساتھ جواب دیا کہ یہاں ایک نہیں دو قومیں بستی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا دین، ہمارا لباس، ہمارا کلچر، ہمارے تہوار، ہماری تاریخ ، ہمارے رسم و رواج سب کچھ ہندوؤں سے الگ ہے۔ یہاں تک کہ ایک قوم کے ہیرو، دوسری قوم کے دشمن ہیں۔ ہم ایک قوم کس طرح ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ نظریہ تھا جو 1940ء میں قرار داد لاہور کی شکل میں سامنے آیا اور جس کو سامنے رکھتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی کی تحریک چلائی۔

کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہی عمل میں آیا۔ حال ہی میں بھارت کا جو چہرہ سامنے آیا ہے وہ ہرگز نیا نہیں۔ یہ وہی چہرہ ہے جسے سرسید، اقبال اور قائد اعظم جیسی شخصیات نے اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ یہ وہی برہمنی سامراج ہے جس کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور جس میں پناہ لینے کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔

آج پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایک ایٹمی طاقت ہے۔ تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود پاکستان مختلف شعبوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اسکی ساکھ بہتر ہو رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں مسلح افواج پاکستان ضربِ عضب میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد کراچی اور ملک بھر میں دہشت گردوں اور انکے ایجنٹوں کے خلاف بھی کامیاب ہو رہی ہیں۔

ا ب کرپشن کے خلاف نئے عزم کا اظہار بھی خوش آئند ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ نریندر مودی کا پاکستان پر بڑا احسان ہے کہ اس نے بھارت کے چہرے پر پڑا سیکولرازم کا نقاب اتار پھینکا ہے۔ دنیا نریندر مودی کو پہلے بھی اچھی طرح جانتی تھی۔ 2002ء میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اس نے سرکار کی سرپرستی میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا تھا اسے آسانی سے نہیں بھلایا جا سکتا۔

اس وقت مودی کا چہرہ ایک دہشت گرد کے طور پر سامنے آیا تھا۔ امریکہ جیسے ملک نے مودی کو ویزہ نہ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ اب وہی مودی بھارت کا وزیراعظم ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں بسنے والی ہندو اکثریت کی سوچ کیا ہے۔ مبصرین کا یہ کہنا درست ہے کہ مودی کے انتخاب نے عالمی سطح پر بھارت کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر مودی آٹھ دس سال تک بھارت کا وزیراعظم رہتا ہے تو شاید بھارت اپنے آپ کو موجودہ شکل میں برقرار نہ رکھ سکے۔

مودی نے کٹر ہندو تعصب کی جو سوچ دی اور جس کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ہندوؤں کی ذہنیت آشکار کر دی ہے اور آج بھارت کی بہت سی ریاستوں میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام اقلیتوں کو اس متعصبانہ سوچ کا سامنا ہے۔ عیسائی، سکھ، اور نچلی ذات کے ہندو بھی اسی رویے کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے یا گھر میں رکھنے کے الزام میں زندہ نذر آتش کیا جا رہا ہے۔

عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ خود نچلی ذات کے ہندوؤں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہی۔ ایسا دکھائی دینے لگا ہے جیسے بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے سوا کسی کو جینے کا حق حاصل نہیں۔ 430 سالہ قدیم بابری مسجد کو آگ لگانے اور شہید کر دینے کی واردات اور گجرات کے مسلم کش فسادات سے شاید بھارت نے کچھ سبق نہیں لیا لیکن حقیقت کیا ہے! یہ اب کوئی راز کی بات نہیں رہی۔

مقبوضہ کشمیر تو سال ہا سال سے بھارتی فوج اور پولیس کے ظلم و ستم کی زد میں ہے لیکن نریندر مودی کی انتہاء پسندانہ سوچ نے پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بات بات پر پاکستان پر الزام لگانے اور ہمیں دہشت گرد ہونے کا طعنہ دینے والا بھارت اب ساری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ دیکھنا اب صرف یہ ہے کہ کیا عالمی برادری بھارت کے بارے میں وہی پیمانہ اختیار کرتی ہے یا نہیں جو محض الزامات کی بنا پر ہمارے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے میڈیا کو بھارت میں اٹھنے والی اس نئی لہر پر توجہ دینا ہو گی۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ہماری حکومت کے ذمہ داران بھی مودی حکومت کے رویہ کو اور انکے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے عزائم کو مد نظر رکھنا چاہیے اور ہمیں اپنے رویہ سے ثابت کرنا ہو گا بھارت کو بتانا ہو گا کہ آپ ہمارے اچھے ہمسائے ہیں اور نہ اچھے دوست۔بھارت پیار سے نہیں آنکھیں دکھانے سے راہ راست پر آسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Baharat Insaniyat Ka Dushman Hai is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 April 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.