”بدلتی دنیا اور پاک بھارت تعلقات“

موجودہ دنیا تبدیلی سے دوچار ہے۔ امریکہ موجودہ دنیا کی واحد سوپر پاور بن چکا ہے اور آنے والے وقت میں اپنی یہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پہلے وقتوں میں فوجی طاقت کے بل پر ہی دنیا کی سوپر پاور کا فیصلہ ہوتا تھا

منگل 22 مارچ 2016

Badalti Dunya Or Pak Baharat Taluqat
ڈاکٹر احمد سلیم:
موجودہ دنیا تبدیلی سے دوچار ہے۔ امریکہ موجودہ دنیا کی واحد سوپر پاور بن چکا ہے اور آنے والے وقت میں اپنی یہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پہلے وقتوں میں فوجی طاقت کے بل پر ہی دنیا کی سوپر پاور کا فیصلہ ہوتا تھا لیکن موجودہ دور میں جب تمام ممالک کی معیشت آپس میں جڑ گئی ہے تو صرف فوجی طاقت اور اسلحے کے ڈھیر کسی ملک کو قائم رکھنے کے لیے کافی نہیں بلکہ مضبوط معیشت کے بغیر یہ سب بیکار ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال روس ہے۔ اسلحے کے انبار ہونے کے باوجود جب اسکی معیشت اسکا ساتھ نہ دے سکی تو اسکا کیا حال ہوا وہ ہم سب نے دیکھا۔ طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھنے کے لیے معاشی مضبوطی بھی بہت اہم ہے اور معیشت کو توانا رکھنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک سے تعلقات اور اتحاد ضروری ہیں۔

(جاری ہے)

فوجی طاقت کے لحاظ دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکہ کی معیشت اسکی فوجی طاقت کا ساتھ نہیں دے پا رہی۔

معاشی زوال کے خطرے کے ساتھ ساتھ امریکی پالیسی سازووں کو یہ خطرہ یہ بھی ہر وقت لاحق ہے کہ کہیں دنیا میں کوئی اور طاقت اس کے سامنے کھڑی نہ ہو جائے اور دنیا کی مکمل حکمرانی کا تاج امریکہ کے سر سے اتر نہ جائے۔ جب بھی دنیا میں واحد عالمی طاقت ہو تو اسکو اپنی یہ جگہ کھو دینے کا ڈر لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ ڈر اس طاقت میں ایک خوف اور Anxiety پیدا کر دیتا ہے۔

جیسا تاریخ میں ” سپارٹا “ کے ساتھ” ایتھنز“ کو لے کر ہوا تھا۔ اسے تاریخ دان اور خارجہ امور کے ماہرین''Thucydides Trap" کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ایک سوپر پاور جو بظاہر دنیا پر راج کر رہی ہو جب کسی اور طاقت کو ابھرتے ہوئے دیکھتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ نئی طاقت مستقبل میں اس کے برابر آ سکتی ہے یا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی ہے تو وہ اس پریشانی اور خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ یہ نئی طاقت دنیا میں اسکی ”بادشاہ“ کی جگہ نہ چھین لے۔

یہ خوف اور ٹینشن اسے اس ابھرتی طاقت کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جو آخر کار ایک بڑ ی جنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم پندرہویں صدی سے آج تک ہونے والی بڑی جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو فرانس، ہالینڈ، برطانیہ، جرمنی اور جاپان سمیت بہت سے ممالک اسی خوف میں یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے جنگیں لڑتے رہے۔ سب سے آخر میں 1940ء سے دسمبر 1991ء کا روس امریکہ سرد جنگ کا زمانہ جس میں دنیا کئی بار جنگ اور تباہی کے دھانے پر پہنچی۔

یہ سرد جنگ روس کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی لیکن یہ شکست روس نے روائتی جنگ میں نہیں بلکہ معاشی میدان میں کھائی تھی۔ آج کی ابھرتی ہوئی طاقت یعنی چین نہ صرف روائتی فوجی طاقت بلکہ معاشی جنگ میں بھی موجودہ واحد عالمی طاقت امریکہ کو چیلنج کرتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے 50 سال میں چین کے GDP میں تقریباََ 2000 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت چین کے ز ر مبادلہ کے ذخائر 2 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر رہے ہیں۔

عالمی بساط میں امریکہ اور چین آمنے سامنے آ رہے ہیں اور نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ چین سے روائتی قربت اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان چاہے یا نہ چاہے اسے خود بخود ان صف بندیوں میں شریک ہونا پڑے گا۔ ایک طرف بھارت امریکہ کی آنکھوں کا تارہ بن رہا ہے جس کی وجہ بھارت چین تنازعات اور پاک چین دوستی ہے تو دوسری جانب پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں ( بجا طور پر) ایک بڑی تبدیلی کا آغاز نظر آتا ہے۔

پچھلی حکومت میں بھی جہاں پاک چین تعلقات میں دوستی کے نئے افق نظر آئے تو ایران اور پاکستان بھی مزید قریب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان سب چیزوں کو تیل کی مجوزہ پائپ لائنوں اور وسط ایشیائی ریاستوں کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ویسے تو چین شاید 2025 تک عالمی سیاست میں بڑی حد تک خاموش رہتا مگر ایک تو روس امید سے زیادہ جلد اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونا شروع ہو گیا اور دوسرا گذشتہ کچھ برسوں میں انڈیا ، برازیل اور ساؤتھ افریقہ کی ترقی کی رفتا ر امید سے کچھ تیز رہی۔

اب چین کے پاس دو آپشنز نظر آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ روس، انڈیا، برازیل ، ایران اور پاکستان ( یا ان میں سے کچھ ممالک) کے ساتھ مل کر ایک بلاک تشکیل دینے کی کوشش کرے جس میں چین کو ” بڑے بھائی“ کا درجہ حاصل ہو۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں ایسے حل طلب تنازعات موجود ہیں کہ دونوں ایک عالمی بلاک میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ شاید اسی دن کے لیے عالمی طاقتوں نے آج تک ان تنازعات کو حل نہیں ہونے دیا۔

دوسری آپشن یہ ہے کہ ابھی چین خاموش رہ کر صرف اپنی اقتصادی ترقی پر دھیان دیے رکھے۔ لیکن دس برس بعد انڈیا ، برازیل اور ساؤتھ افریقہ میں سے ایک یا دو بجائے چین کے چھوٹے بھائی بننے کے چین کے ” مد مقابل“ ہوں گے۔۔ علاوہ ازیں ظاہر ہے کہ موجودہ ” شاہ“ یعنی امریکہ خاموشی سے انتظا ر تو نہیں کرے گا کہ چین اسے مکمل طور پر چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔

امریکہ پاکستان کو (1) ملٹری ایڈ ، (2) اکنامک ایڈ اور (3) USAID کی مد میں امداد دیتا ہے ۔2002 سے لے کر 2011 کے درمیان اس کا ٹوٹل حجم تقریباََ 17.478 بلین ڈالر تھا۔ قیام پاکستان سے اب تک 66 برس میں امریکہ نے سب ملا کر تقریباََ 68 بلین ڈالر ہمیں دیے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نام نہاد ” وار آن ٹیرر “ میں ہمارے نقصانا ت کا تخمیینہ تقریباََ ایک سو بلین ڈالر ہے۔

بہر حال ایک طرف 66 برس میں 68 بلین ڈالر اوردوسری جانب چین کی جانب سے پاکستان میں یکمشت 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ایک طرح سے چین کی جانب سے امریکہ کو چیلنج ہی ہے۔ چین کے خلاف بھارت امریکہ کا بہتر پارٹنر ثابت ہو گا تو دوسری جانب چین پاکستان کا روائتی دوست ہے۔ چین کے ساتھ ہمارا مذہبی اور ” تہذیبی ٹکراؤ“ بھی نہیں ہے اسی لیے چین کے اگلی صدی کے منصوبوں میں مکمل پاکستان ”بشمول بلوچستان“ موجود ہے۔

انڈیا میں بھی چین بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ برازیل اور ساؤتھ افریقہ سے بھی چین کے تعلقات بہتر سے بہترین ہو رہے ہیں۔ رہا سوال انڈیا اور پاکستان تعلقات کا تو وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک دنیا کے حالات کو سمجھتے ہوئے اپنے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ بھارت کے لیے بہتر ہے کہ وہ روائتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے زمینی حقیقت کو تسلیم کر لے کہ پاکستا ن کو ” ڈکٹیشن “ دینے اور اپنی ہر بات منوانے کی پرانی خواہش اسے چھوڑنی پڑے گی۔

پاکستان ایک حقیقت اور طاقت ہے اور بھارت کو بالاخر ” کچھ لو اور کچھ دو “ کی حقیقت پسندانہ پالیسی ہی اپنانی پڑے گی۔ پارلیمنٹ یا جلسوں میں پاکستان مخالف جذباتی تقریروں سے بھارتی سیاستدان اپنی عوام کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن یہ سب تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Badalti Dunya Or Pak Baharat Taluqat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.