آرمینیا کے مہاجرین

ترکی میں آج بھی ان پر زمین تنگ ہے ایک صدی قبل سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام میں آرمینیا کے لاکھوں عیسائی شہریوں کا خون بہایا گیاتھا۔ آرمینیا سے تعلق رکھنے والی خاتون ایلانے اپنے پیش رووٴں کے برعکس مختلف راستہ اختیار کیا۔ آبائی وطن کی جگہ ترکی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں

جمعرات 12 مئی 2016

Armenia Ke Muhajirin
فہیم اوزال :
ایک صدی قبل سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام میں آرمینیا کے لاکھوں عیسائی شہریوں کا خون بہایا گیاتھا۔ آرمینیا سے تعلق رکھنے والی خاتون ایلانے اپنے پیش رووٴں کے برعکس مختلف راستہ اختیار کیا۔ آبائی وطن کی جگہ ترکی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ترکی میں وہ ایک نن کی حیثیت سے کام کرتی ہے لیکن اسے ملک بدر کئے جانے کا ہمیشہ خطر لاحق رہتا ہے۔

سابق سوویت ریاست کے لاکھوں غیر رجسٹرڈ ورکرز ایک دہائیوں پرانے سفارتی جھگڑے پر خود کو یہاں یرغمال محسوس کرتے ہیں۔ ایک صدی پرانے واقعے میں پندرہ لاکھ آمینیں عیسائی سلطنت عثمانیہ کی حکومت کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے۔ گزشتہ دنوں اس کی ایک یادگار بھی قائم کی گئی ہے جسے پر آرمینیا اور ترکی کے ہمسایہ دوست ملک ازبکستان کے درمیان تنا و بڑھ گیا ہے۔

(جاری ہے)


آرمینین خاتون ایلا کا کہنا ہے کہ ”ہم ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ترک حکام ہمیں کس بھی وقت ملک سے نکل نہ دیں۔“ شایدیہی وجہ ہے کہ وہ ترکی میں اپنا پورا نام شائع نہیں کرتی۔ ہر روز گھر بخیریت پہنچ کر وہ لاکھ بار خدا کا شکر یہ ادا کرتی ہے۔ اس کا خوف صرف اسی صورت ختم ہو سکتا ہے کہ اسے ترکی کی شہریت مل جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ترکی میں آرمینین باشندوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔

ان میں سے زیادہ تر آمینین یاروان سے استنبول بسوں کے ذریعے آئے تھے۔ تین لاکھ شامی اور لاکھوں عراقی مہاجرین کے مقابلے میں ان کی تعداد خاصی کم ہے۔ انہیں آبائی وطن میں سیاسی ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔
مغربی دانشوروں اور دودرجن سے زائد ممالک کا کہنا ہے کہ 1915 میں آرمینین عیسائیوں کا قتل عام ان کی نسل کشی کے مترادف تھا۔

ترکی اس بات کوتو تسلیم کرتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران انقلاب کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے لیکن وہ اس چیز کو سختی سے رد کرتا ہے کہ ان کی نسل کشی کی گئی تھی۔
نگورنوکاراباخ کا مسئلہ مسلم آزربائیجان اور آرمینین عیسائی علیحدگی پسندوں کے درمیان سخت کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے یہ علاقہ آذربائیجان کے اندر ہے جس پر آرمینین کے نسل پرستوں کا قبضہ ہے۔


ترکی صدر طیب اردگان 1994 میں نگورنوکارخ پر سیز فائر کے باوجود ہنگامے پھوٹں ے کا الزام آرمینیا پر ڈالتے ہیں جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گے تھے۔ ترک باشندے سوش میڈیا پر آج بھی آرمینین کو ”قاتل“ لکھ کر ان کی مذمت کرتے ہیں اور نگورنوکاراباخ کو ترکی کا حصہ قراد یتے ہیں ۔ 54 سالہ ایلا کا کہنا ہے کہ آج کل یہ افواہیں بھی سرگرم ہیں کہ آذربائیجان کی وجہ سے انہیں ترکی سے نکال دیا جائیگا۔

نفرت کا یہ کھیل کب ختم ہو گا؟ ایک صدی پرانے نسل کشی کے واقعہ پر وہ عالمی کوششوں کو ناکافی قرار دیتی ہیں۔ ترکی صدر اردگان آرمینین مہاجرین کو ملک سے نکالنے کی باقاعدہ دھمکی دے چکے ہیں۔ دوسری جانب وہ صلح پر بھی آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور 2014 میں اس کو ایک صدی پورا ہونیوالی تقریب میں اپنے ایک وزیر کو چرچ میں ہونے والی تقربیات میں بھجوا چکے ہیں۔


آرمینین النسل گیروپیلان 2015 کے ترک انتخابات میں پچاس سالہ تاریخ میں پارلیمنٹ میں پہنچنے والے تین قانون سازوں میں سے ایک ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ 100سالہ پرانے واقعہ کی تحقیق کا مطالبہ اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ اس کا الزام ترکی پر آتا ہے۔
آرمینیا نے 1993 میں نگور نوکاراباخ میں لڑائی کے دنوں میں ترکی سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ 2009 میں امریکہ، روس اور فرانس کی کوششوں سے ان کے تعلقات کی بحالی کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن آذربائیجان کی جانب سے اسے پذیرائی نہ مل سکی۔

آرمینین تھنک ٹینک کے آئیبرس گورگیلیو کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آجائیں گے۔
آرمینیا اور ترکی کے درمیان کشیدگی کا آرمینیا کے ترک شہریوں پر منفی اثر پڑا ہے۔ 78ملین آبادی کے ملک آرمینین کے 60000 شہری ترکی میں رہائش پذیرہیں۔ یہاں انہیں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ بے روزگاری ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی فیملی کی کفالت کرنے سے بھی قاصردکھائی دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Armenia Ke Muhajirin is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 May 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.