امریکہ کا پہلا مسلمان جج

ریپبلکن جماعت صدراوباما کے فیصلے کی مخالف کیا نئی تاریخ رقم ہوپائے گی

جمعرات 6 اکتوبر 2016

Amrika Ka Pehla Musalman Judge
عثمان یوسف قصوری :
سپرپاور امریکہ کا شمار دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں کیاجاتا ہے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں جمہوری اقداراور روایات پروان چڑھ چکی ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں مختلف مذاہب ، رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو مکمل مذہبی، معاشرتی معاشی اور سیاسی آزادی حاصل ہے۔ اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو اتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے اس کے قدیم باشندوں کی اکثریت کو دئیے گئے ہیں کہنے اور سننے کی حدتک یہ باتیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ امریکہ دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں تعصب اور تنگ نظری جیسے جذبات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ زبانی کلامی دعوؤں کے برعکس اصل حقیقت اُ س وقت عیاں ہوتی ہے جب امریکہ کے بعض متعصب سیاستدان ملک میں بسنے والی دیگر اقوام کے خلاف انتہا پسندانہ رویہ اپنا کرپروپیگنڈہ کرنے لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

عاقبت نااندیش سیاستدان یہ احساس بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اس اقدام سے ملک میں امن وامان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ عرصہ دراز سے ایک ساتھ رہنے والی اقوام میں دوریاں اور فاصلے بڑھنے چلے جارہے ہیں ۔ گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتے اختلافات باہمی دشمنی اور رقابت کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ دیگر اقوام سے تعصب برتنے میں مشہور ریپبلکن پارٹی کے نامور سپوت سابق صدر بش کی انتہا پسندی پر مبنی پالیسیوں نے دنیا کاامن برباد کرکے رکھ دیا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدر منتخب ہونے والے باراک اوباما نے جنگی پالیسیوں کا تسلسل تو جاری رکھا لیکن ان میں اصلاحات کرتے ہوئے بش دور کے نقصانات کاازالہ کرنے کی کوشش بھی کی۔

اس کی ایک تازہ ترین مثال یہ بھی ہے کہ انہوں نے ملک میں بسنے والی مختلف اقوام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے پاکستان نژاد معروف قانون دان عابد ریاض قریشی کوامریکہ کا پہلا مسلمان دفاتی جج نامزد کردیاہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق عابد ریاض قریشی کی نامزدگی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کورٹ کے دفاقی جج کے طور پر کی گئی ہے۔ امریکی صدراوباما کا اس سلسلے میں یہ کہنا تھا کہ ” مجھے یونائیٹڈسٹیٹس ڈسٹرکٹ کورٹ بینچ میں عابد قریشی بطور جج نامزد کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ وہ انصاف کے اصولوں پر کاربندرہتے ہوئے نہایت ، دیانت داری سے امریکی عوام کی خدمت کریں گے “ امریکہ میں مسلم ایڈووکیٹس کے نام سے کام کرنے والی تنظیم نے اوباما کی جانب سے عابد قریشی کی بطور دفاقی جج نامزدگی کو لائق تحسین اقدام قراردیا ہے ۔ فرخانہ خیرہ اس گروپ کی ایگزیکٹوڈائریکٹر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عابد قریشی کی نامزدگی تمام مذاہب رنگ ونسل کے لوگوں کے لے پیام امن بن کر سامنے آئے گی ۔

وہ امن وامان کے قیام کے لیے عدل وانصاف کے تمام تراصولوں اور تقاضوں پر پورا اتریں گے۔ مسلم ایڈووکیٹس گروپ ماضی میں مختلف کیسز کے سلسلے میں عابد قریشی کے ساتھ کام کرچکا ہے ۔ اس لئے وہ ان کی صلاحیتوں اور خوبیوں سے بخوبی واقفیت رکھتا ہے ۔
امریکہ کی متعصب ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جومسلمانوں اور دوسرے ممالک سے امریکہ آنے والے مہاجروں کے خلاف جارحانہ انداز میں مہم شروع کیے ہوئے ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات کابھی برملااظہارکرچکے ہیں کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پرپابندی عائد کرتے ہوئے انکی مساجد پرتالے لگوادیں گے۔ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ کوئی بھی مسلمان اور میکسیکو سے تعلق رکھنے والا مہاجراس اہم اور حساس نوعیت کے عہدے کے لیے موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سان ڈیاگو کے فیڈرل کورٹ میں ٹرمپ یونیورسٹی کے سابق طالب علموں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک مقدمہ درج کروایا تھا۔

جس میں طالب علموں کی جانب سے یہ موقف اختیار کیاگیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان سے ٹیوشن فیس کی مد میں بہت زیادہ پیسے وصول کیے اور اس کے عوض انہیں معیاری تعلیم نہیں مہیا کی گئی ۔ اس طرح یونیورسٹی کا یہ اقدام دھوکہ دہی اور افراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں مصروف تھے اور اس مقدمے سے ان کی مہم میں مصروف تھے اور اس مقدمے سے ان کی مہم شدید متاثر ہو رہی تھی ۔

ان کے وکلاء نے عدالت کے روبرو حاضر ہوکر استدعاکی کہ یہ چند ناراض طالب علموں پر مشتمل ایک چھوٹا ساگروپ ہے لیکن عدالت نے حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے کیس خارج کرنے کی استدعا مسترد کردی ۔ جج کے فیصلے پر سیخ پاہوتے ہوئے ٹرمپ کاکہنا تھا کہ جج گونرالوپی کوریل انڈیانا میں پیداہوئے ۔ وہ میکسیکن بیک گراونڈ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے والدین میکسیکو سے ہجرت کرکے امریکہ آئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ میرے خلاف روایتی تعصب کامظاہرہ کررہے ہیں۔ اس طرح وہ وفاقی جج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے توہین عدالت کے مرتکب بھی ہوئے ۔
ریپلکنز نے صدراوبامہ کے فیصلہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے دورصدارت کے اختتامی مہینوں میں ایسی نامزدگیوں سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ مسلمان اور میکسیکو سے تعلق رکھنے والے افراد کسی بھی صورت میں اس کلیدی عہدہ پر تعیناتی کی اہلیت نہیں رکھتے ۔

عابدقریشی کی نامزدگی کو امریکی سینٹ سے توشیق کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی وہ یہ عہدہ سنبھالنے کے قابل ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت امریکی ایوان بالا میں حزب اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی اکثریت میں ہے اور اس کے ارکان ماضی میں صدراوباما کی عدالتی نامزدگیوں کی منظوری دینے سے انکار بھی کرچکے ہیں ۔ ان کا مئوقف ہے صدر اوبامہ آخری مہینوں میں ایسے اقدامات سے باز رہیں جس سے سیاسی اختلافات کو ہوا ملے۔

دوسری جانب اوبامہ انتظامیہ کاکہنا ہے کہ امریکی آئین کے تحت صدر پرایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ ریپبلکن اُمیدواروں کی مخالفت کے باعث وائٹ ہاؤس جسٹس روز میری کی سیٹ کے لئے عابد قریشی کے ساتھ ساتھ یوایس ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ میں خدمات سرانجام دینے والے سٹیون بونیل اور وائٹ ہاؤس میں فرائض ادا کرنے والی ایریکا ولیم پر بھی غور کررہے ہیں۔

جس کامقصد یہ ہے کہ اگر عابد ریاض قریشی ریپبلکن ارکان کے تعصب کاشکار بنے تو ان دونوں میں سے کسی ایک کو جج مقرر کردیا جائے ۔ ان دونوں کا نمبربدستوردوسرا ہی رہے گا کیونکہ اوبامہ انتظامیہ کی پوری کوشش ہے کہ اس سیٹ پر عابد ریاض قریشی کو ہی مقرر کیاجائے ۔ ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے سرپر اسلاموفوبیا اس قدر سوا رہوچکا ہے کہ وہ صدرباراک اوبامہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان امریکہ کاصدر نہیں بننا چاہئے ۔

اس کی وجہ ہے کہ ان کی والدہ کی شادی افریقہ کے مسلمان شخص سے ہوئی تھی ۔ وہ اس بات کا بنیاد بنا کر اوبامہ پرتابڑتوڑحملے بھی کرتے رہے ہیں۔
تقریباََ پانچ دہائیاں پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں مذہب رنگ ونسل کی بنیاد پر ہونے والے فساد اور لڑائی جھگڑے معمول کی بات تھی۔ سیاہ فام امریکی گورے امریکیوں کے تعصب اور جبروتشددکانشانہ بنتے چلے آرہے تھے ۔

ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک روارکھا جاتا تھا۔ اس دور میں گوروں کے ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنا اپنی جان کو کسی مصیبت میں ڈالنے سے کم نہیں تھا۔ ایسے وقت میں ایک افریقی النسل امریکی پادری اور انسانی حقوق کے علمبردار مارٹن لوتھرکنگ جونیئر نے امریکہ میں یکساں شہری حقوق کے لئے زبردست مہم کاآغاز کیا۔ انہوں نے شہریوں میں ان کے حقوق کے حوالے سے شعور اجا گرگیا۔

کنگ کی قیادت میں 1963ء کو واشنگٹن کی جانب مارچ کیاگیا ۔ 1964ء میں نسلی تفریق اور امتیاز کے خلاف شہری نافرمانی کی تحریک چلانے اور احتجاج کے لئے پرامن طریقہ بنانے پر لوتھرکنگ کونوبل امن انعام سے نوازاگیا۔ اسی سال صدر لنڈن جانسن نے شہری آزادی کے تاریخی بل پردستخط بھی کئے ۔ کنگ نے سیاہ فام باشندوں کے لئے مساوی حقوق اور ووٹ کے حق کے لئے پرامن احتجاج کیاکنگ کوششوں سے ہی مسافر بسوں میں سیاہ فام مسافروں کو گوروں سے الگ بٹھانے کا ہنک آمیز سلسلہ ختم کیا گیا۔

1968ء میں کنگ کو اس وقت قتل کردیاگیا جب وہ مساوی اجرت کے لئے ہڑتال کرنے والے سیاہ فام مزدوروں کی مدد کرنے گئے تھے۔ آج اگرامریکہ میں ایک سیاہ فام امریکی صدر حکومت چلارہا ہے تواس کے پیچھے مارٹن لورتھر کنگ کی جدوجہد اور قربانی کارفرما ہے جو اس نے نسلی تفریق اور امتیاز کاخاتمہ کرنے کے لئے دی۔ ریپبلکن جماعت اور اس کے رہنماء اپنے متعصب ومتشددرویہ اور انتہا پسندانہ سوچ کے باعث امریکہ کو ایک بار پھر ماضی کے اس کے دور میں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔

جس میں امریکہ میں بسنے والی مختلف اقوام باہمی تصادم کی راہ اپنائے ہوئے تھیں دنیا بھر کے مسلمان اورا مریکہ میں بسنے والی اقلیتیں دعا گوہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدرنہ بنے۔ امریکی صدر اوبامہ نے پاکستانی نژاد قانون دان عابد ریاض قریشی کو ملک کا پہلا مسلمان جج نامزدتوکردیا لیکن آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ حکمران ڈیموکریٹک جماعت ایوان بالا میں موجود اپوزیشن ارکان کی اکثریت پراثرانداز ہوکر اس کی توثیق میں کامیاب رہتی ہے یاتعصب زدہ ریپبلکن پارٹی امریکی قوم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Amrika Ka Pehla Musalman Judge is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 October 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.