افغانستان کی صورتحال

یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں کسی نہ کسی صورت بدامنی اور قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے مگر مشرق وسطیٰ اور افغانستان کا خطہ اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی اور شورش نے بہت تباہی مچائی ہے، افغانستان چونکہ پاکستان کا اہم ترین اور قریبی ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے قدیم مذہبی، لسانی اور ثقافتی روابط ہیں

پیر 30 جنوری 2017

Afghanistan Ki Sorat e Hall
رابعہ رحمن:
یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں کسی نہ کسی صورت بدامنی اور قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے مگر مشرق وسطیٰ اور افغانستان کا خطہ اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی اور شورش نے بہت تباہی مچائی ہے، افغانستان چونکہ پاکستان کا اہم ترین اور قریبی ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے قدیم مذہبی، لسانی اور ثقافتی روابط ہیں اس وجہ سے وہاں کی صورتحال کا براہ راست اثر ہم پر پڑتا ہے۔

70 اور 80ء کی دہائیوں میں روسی مداخلت کے بعد سے لڑائی اور قتل وغارت کا شروع ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس طویل لڑائی اور شورش کی وجہ سے افغانستان ایک تباہ حال ملک بن چکا ہے‘ اس ساری صورت حال نے ہمیں بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں اور آج بھی 30لاکھ سے زیادہ افغانی پاکستان کی سرزمین پر مہاجرین کی صورت میں مقیم ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا کے کسی بھی ملک میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے‘ اس کے علاوہ ہماری معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی جبکہ ہماری معاشرتی زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے ہمیشہ افغانستان عوام کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ روزانہ ہزاروں افغان شہری آج بھی مختلف راستوں سے پاکستان میں روزگار اور دوسری سماجی ضروریات کی وجہ سے آتے جاتے ہیں۔

بحری دسترس نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان کی ساری تجارت کا انحصار پاکستان کے راستے سے ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے جاری اندرونی لڑائی کے دوران پاکستان نے ہمیشہ ایک برادر اسلامی ملک اور ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان میں قیام امن کی خاطر ایک ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارا کردار اور رویہ ا?ج بھی ایسا ہی ہے مگر اس کے برعکس افغانستان کا طرز عمل آج یکسر بدل چکا ہے۔

مختلف تناظر سے اگر دیکھاجائے تو افغانستان ایک دوست ہمسایہ اسلامی ملک کی بجائے مجموعی طور پر پاکستان مخالفت میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ آج افغانستان کی حکومت، اسٹیبلشمنٹ، قومی سلامتی کے ادارے اور عوام کی ایک بڑی تعداد خصوصاً غیر پشتون پاکستان کی مخالفت اور دشمنی میں مصروف عمل ہیں باوجود اس کے کہ پاکستان پر انحصار کسی طور پر ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوا۔

افغانستان کی حکومت اور فوج ہمارا کوئی احسان یا بھلائی ماننے کو تیار نہیں، یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ اس میں ہمارے دشمنوں بالخصوص ہندوستان کی گزشتہ ایک عشرے سے زیادہ کی محنت اور سازشیں شامل ہیں۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے ہندوستان کی حکومت اور خفیہ را ایجنسی نے ایک باقاعدہ حکمت عملی کے ذریعے نہ صرف افغانستان میں اپنا عمل دخل بڑھایا بلکہ پاکستان کے خلاف ایک نفرت اور دشمنی کا ماحول بھی پیدا کیا۔

اس پاکستان مخالف کا محور یہ تھا کہ افغانستان کی ساری صورتحال کا ذمہ دار پاکستان ہے جو نہیں چاہتا کہ وہاں پر امن ہو۔ پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور افغانستان میں برسرپیکار بڑے عسکری گروہوں کو پاکستان کی پشت پناہی اور حمایت حاصل ہے، ہندوستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور پاکستان مخالف دوسرے عناصر اس سلسلے میں مکمل گٹھ جوڑ کرچکے ہیں۔

ایک سازش کے تحت افغان عوام کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان سے بدظن کیاگیاہے، اصل صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین بھرپور طریقے سے ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے ایک عرصے سے ہمارے ہاں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں میں جو گروپس شامل ہیں ان کی قیادت نہ صرف افغانستان میں موجود ہے بلکہ انہیں وہاں سے ہر قسم کی حمایت ومدد بھی مل رہی ہے۔ ملافضل اللہ جیسے دہشت گرد افغانستان میں مقیم ہیں اور آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ا?رمی پبلک سکول، باچاخان یونیورسٹی اور دوسرے بہت سے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث لوگ افغانستان سے آئے اور پھر فرار ہوکر واپس وہاں چلے گئے۔

پاکستان نے ان حملوں کے فوراً بعد صرف الزام تراشی کی بجائے افغانستان کو ہرطرح کے ثبوت فراہم کئے، آرمی چیف نے خود افغانستان کا دورہ کیا اور اعلیٰ ترین سطح پر افغان قیادت کے ساتھ رابطہ کرکے ساری صورت حال سے آگاہ کیاتاکہ مشترکہ طور پر اس طرح کی کارروائیوں کو روکا جاسکے۔ افغانستان کے صدر نے دورہ پاکستان کے دوران جی ایچ کیو کا دورہ بھی کیا اور باہمی روابط بڑھانے کا عہد بھی کیا مگر پھر وہاں اسٹیبلشمنٹ اور ہندوستان کے زیراثر Intillegence Agencyنے اپنا کام دکھایا اور صورتحال بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جاتی گئی۔

آپریشن ضرب عضب کے دوران اور بعد میں پاکستان نے یہ تجویز بھی دی کہ دونوں ممالک کی سرحد پر باڑ لگادی جائے اور بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے سرحد کے آر پار غیرقانونی حرکت کو روکاجائے مگر افغانستان نے اس سلسلے میں بھی کوئی خاطر خواہ تعاون نہیں کیا۔ افغانستان میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتاہے تو بغیر سوچے سمجھے پاکستان پر اس کا الزام لگادیاجاتاہے حالانکہ پاکستان نے اس سلسلے میں ہمیشہ دانشمندی اور سنجیدگی کا ثبوت دیاہے۔

گزشتہ ہفتے کابل اور قندھار میں ہونے والے حملوں کے بعد بھی پاکستان کے آرمی چیف نے فوری طور پر افغانستان کے صدر سے رابطہ کرکے نہ صرف بھرپور مذمت کی بلکہ ہر طرح کے تعاون کا یقین بھی دلایا۔ وزیراعظم سمیت اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر بھی ہمیشہ اسی طرز عمل کا مظاہرہ کیاگیا ہے۔ اس ساری صورت حال میں افغانستان کی حکومت، فوج اور سیاسی قیادت کو اپنے رویئے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ روز بروز نقصان ہورہاہے۔

خطے میں دیرپا امن اور خوشحالی کیلئے پاکستان اور افغانستان کا ہم خیال ہونا اور ایک دوسرے سے قریبی تعاون بہت ضروری ہے جس کیلئے افغانستان کو اپنے مجموعی طرز عمل اور حکمت عملی پر غورکرنا ہوگا وگرنہ افغانستان اسی طرح دوسروں کی مداخلت اور میدان جنگ بنا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan Ki Sorat e Hall is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 January 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.