تعلیم۔۔۔۔۔ انحطاط پذیر کیوں؟

جس طرح کسی عمارت کی تعمیر کے لئے ایک تربیت یافتہ انجینئرکی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بچے کے مستقبل کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے بھی ایک تربیت یافتہ استاد کی ضرورت ہے۔

جمعرات 26 فروری 2015

Taleem Inhetad Pazir Kiyon
رانا لیاقت علی:
جس طرح کسی عمارت کی تعمیر کے لئے ایک تربیت یافتہ انجینئرکی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بچے کے مستقبل کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے بھی ایک تربیت یافتہ استاد کی ضرورت ہے۔ اچھی اور معیاری تعلیم کے لئے اچھے استاد اور اچھے نصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ابتدائی تعلیم کیلئے استاد اعلی تربیت یافتہ ہو گا تو بچے کی تعلیمی بنیاد پختہ ہو گی۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ استاد تعلیم یافتہ تو ہے لیکن حکومت نے اسکی تربیت کا خصوصی بندوبست نہیں کیاکیونکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی لئے ہماری تعلیم انحطاط پذیر ہے۔ اور اس کی براہ راست ذمہ دارہماری حکومت ہے۔ جس نے تربیتِ اساتذہ پر توجہ نہ دیکر اپنی قوم کے ساتھ زیادتی کی ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ حالات میں ہم تعلیم خصوصاً ابتدائی تعلیم میں بہتری نہیں لا سکتے ہیں نہ ہی تعلیمی میدان میں اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں جب تک ہم نے اساتذہ کی تقرری سے قبل ان کی تربیت پر خصوصی توجہ نہ دی۔

بہتری اور اہداف کے حصول کے لئے ہمارے پاس وسائل بھی موجود ہیں اور تجربہ کار افراد بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا آغاز کیسے کیا جائے۔ہمیں اپنی ابتدائی تعلیم کے لئے ہر حال میں تریبت یافتہ اساتذہ کی فورس تیار کرناہوگی۔اس کے لئے پنجاب بھر کے ایلیمینٹری ٹیچرز ٹریننگ کالجز کو فی الفور ٹیچرز اکیڈمی کا درجہ دے کر وہاں پر بی ایڈ اور ایم ایڈ پاس افراد کی سلیکشن کرکے اْن کی کم از کم ایک سالہ اقامتی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔

تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو تریبت یافتہ اساتذہ مہیا کر سکیں۔ ایک ماہ یا 15 دن کی انڈیکشن ٹریننگ کا بالکل کوئی فائدہ نہیں یہ صرف ڈنگ ٹپاوٴ پروگرام ہے۔ جس کا رزلٹ ہمارے سامنے ہے کہ ہر سال کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے باوجود حقائق کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اگر DSD اتنا ہی مستحکم اور مضبوط ادارہ ہے اور اْن کی ٹریننگ اتنی ہی سود مند ہے تو پھر رزلٹ کیوں خراب ہیں۔

کہیں نہ کہیں کوئی خرابی موجود ہے جس کی وجہ سے ہم دن بدن تعلیمی میدان میں انحطاط پذیر ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ سرکاری سکولوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کُن ہے تو کیا پرائیویٹ سیکٹرسکولزو مدارس دیگر شامل ہیں کی تعداد تو سرکاری سکولوں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ ہے کیا وہ بھی تعلیمی انحطاط کے برابر ذمہ دار ہیں؟ تعلیمی میدان میں ترقی نہ تو مفت کتابیں دینے سے آئے گی اور نہ ہی اساتذہ کو ذہنی مریض بنا کر اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

تعلیمی ترقی کے لئے جنون اور جلد بازی سے نہیں بلکہ ہمیں اس کے لئے طویل پلاننگ /منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی پرائمر ی تعلیم کو ترجیح دینا ہوگی۔ ہمیں آئندہ دس سالوں میں کم از کم تین لاکھ اساتذہ پرائمر ی سطح پر بھرتی کرنا پڑیں گے۔ جنہیں ایک سال کی اقامتی تربیت دینا پڑے گی۔ ان اساتذہ کی تربیت کے لئے وسائل ہمارے پاس موجود ہیں۔

ہر ضلع میں ایلیمنٹری ٹیچرز ٹریننگ کالجز موجود ہیں۔ ان کو ٹیچرز اکیڈمیز کا درجہ دے دیا جائے۔ اور وہا ں پر پڑھانے والے SSS/SS صاحبان پہلے ہی تجربہ کار ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرکے ہم ہر سال کم از کم 30 ہزار اساتذہ تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ہر سال 30ہزار افراد جن کی عمر 22 تا 30 سال ہو اور وہ بی ایڈ یا ایم ایڈ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں کی سلیکشن کی جائے۔

انہیں باقاعدہ ٹیچر بنانے کے لئے ایک سال کی تربیت کیلئے ٹیچرز اکیڈمی میں بھیج دیا جائے۔ وہ بخوبی آگاہ ہو کہ میری تربیت کے تمام اخراجات بھی حکومت نے برداشت کرنا ہیں۔جب کوئی فرد استاد بننے کے لئے ایک سالہ تربیتی کورس مکمل کر لے گا تو وہ اپنے آپ کو معلم تصور کرے گا۔ اور دورانِ ٹریننگ اُسے پیشے سے لگاوٴ ، نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اندازہ بھی ہوگا یہ بات طے کی جائے کہ جن افراد کو بطور استادسلیکٹ کرنے کے بعد ٹریننگ /تربیت دی جائے گی وہ کم از کم پانچ سال گورنمنٹ سکول میں لازمی پڑھائے گا۔

اور اگر وہ اس سے پہلے ملازمت چھوڑے گا تو تربیت کے تما م اخراجات اُسے واپس کرنا پڑیں گے۔ (شورٹی بانڈ کی شکل میں) اصل اسناد بطور ضمانت رکھی جا سکتی ہیں۔جہاں تک زیر تربیت اساتذہ کی رہائش اور کھانے کے اخراجات کا مسئلہ ہے تو اُس کے لئے کوئی اضافی بجٹ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ محکمہ تعلیم میں اس وقت جن لوگو ں کو تین سالہ کنٹریکٹ پر بطو رٹیچربھر تی کیا جاتا ہے ان کو پنجاب حکومت پے سکیل/ تنخواہ کے ساتھ سوشل سیکیورٹی کے نام پر 30% اضافی تنخواہ یعنی کہ ESE کو1860/00روپے SESE کو2400/00 روپے SSEکوتقریباً3000/00روپے ہر ماہ اضافی ادا کرتی ہے۔

اسی طرح کنٹریکٹ ٹیچر کو تین سال تک 30% تنخواہ بطور سوشل سیکیورٹی دی جائے توہرESEکو66960روپے SESEکو 86400روپے SSE کو 1,18,800 تین سال میں اضافی تنخواہ لیتا ہے۔ حکومت اگر یہ ہی رقم ان اساتذہ کی تربیت پر خرچ کردے اور تربیت مکمل کرنے والے اساتذہ کو ریگولر بنیاد پر بطور استاد تعینات کر دیا جائے تو اس سے کئی قباحتیں ختم ہوجائیں گی۔ کم از کم بھرتی ہونے والے فرد کو یہ یقین ہو گا کہ وہ مستقل بنیادوں پر استاد بھرتی ہوا ہے۔

تاکہ مطمئن ہو کر اپنے فرائض منصبی ادا کر سکے۔ اور ایسے تربیت یافتہ اساتذہ جو اپنی ٹریننگ کامیابی سے مکمل کر لیں انہیں کم از کم گریڈ 16 دیکر تعینات کیاجائے تا کہ اْسے معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے۔محکمہ تعلیم پنجاب میں اساتذہ کے مختلف کیڈرز HM, SS, SST, EST, PST کو ختم کرکے PSTکوEST , SST , SS کو HST اور HM کو پرنسپل میں تبدیل کیا جائے۔

اور EST کو گریڈ16 ، HST کو گریڈ 17 اور پرنسپل کو گریڈ 18 دیا جائے۔EST کلاس اول تا کلاس 8th جبکہ HST کلاس 9th تاکلاس 12th تک پڑھائے۔ چونکہ نئی ریکروٹمنٹ پالیسی کے مطابق اساتذہ کی پوسٹوں کے لئے تعلیمی قابلیت تبدیل ہو چکی ہے۔ حکومت پنجاب نے پرائمری استاد کے لئے تعلیمی قابلیت تو بی اے/بی ایس سی ، ایلیمینٹری ٹیچر کے لئے ایم اے /ایم ایس سی ، سیکنڈری ٹیچر کے لئے ایم اے / ایم ایس سی تو مقررکر دی ہے لیکن ان کو تعلیمی قابلیت کے مطابق سکیل دینے سے گریزاں ہیں۔

اگر کسی اچھے ماہرانجینئر کو معقول معاوضہ دینے کی بجائے اْسے مزدور کے برابر معاوضہ دیکر تصور کر لیا جائے کہ یہ ہماری عمارت /بلڈنگ کی بنیاد پختہ اور درست سمت میں رکھے گا تو یہ خام خیالی کے مترادف ہے۔ حکومت سرکاری شعبہ میں ایک ڈاکٹر/انجینئر بنانے کے لئے تو لاکھوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن ایک تربیت یافتہ استاد تیار کرنے کے لئے کتنا خرچ کیا جا رہا ہے؟ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لئے تو ایف ایس سی کے بعد انٹری ٹیسٹ پھر پانچ سال تدریس و تربیت کے پراسس سے گزرنا پڑتا ہے لیکن استاد بننے کے لئے کسی بھی کالج/ یونیورسٹی (پرائیویٹ/سرکاری) سے گھر بیٹھے یا ادارے میں چند ماہ پڑھنے کے بعد بی ایڈ یا ایم ایڈ کی ڈگری کا حصول بغیر تربیت کے ٹیچنگ کے لئے کافی تصور ہوتا ہے۔

جس پرحکومت کوکوئی مالی بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑتا۔جو کہ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ڈاکٹر /انجینئر بنانے کے لئے حکومت لاکھوں روپے فی کس خرچ کر رہی ہے لیکن ڈاکٹر یا انجینئر کی بنیاد رکھنے والا استاد پر حکومت کیا خرچ کر رہی ہے۔ جہاں تک DSD کا کردار ہے تو اسے ختم کرنے کی بجائے اسے ٹیچرز اکیڈمیز میں تدریسی سٹاف کی جدیدتقاضوں کے مطابق تربیت کا بندوبست کرنے کا اختیارسونپ دیا جائے۔

اور ساتھ ساتھ ان ٹیچرز اکیڈمیز میں زیر تربیت اساتذہ کی دوران تربیت مانیٹر نگ کرے۔ تربیت کے ماڈل تیار کرے۔جبکہ اسے ہم 15 روزہ یا 30روزہ انڈکشن ٹریننگ یا محکمہ تعلیم کے متوازی انسپکشن کے نظام یا پھر ایسے اقدامات جن کا زمینی حقائق سے تعلق نہ ہو سے دور رکھیں اور اس کا سربراہ ایسے شخص کوبنائیں جو ماہر تعلیم اور ایجوکیشن خصوصاً ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں پی ایچ ڈی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Taleem Inhetad Pazir Kiyon is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 February 2015 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.