قرضوں پر انحصار

27 ماہ میں 4368 ارب کا مزید بوجھ بڑھ گیا۔۔۔ ملک کی خوشحالی کا دعویٰ ہر حکومت کرتی ہے اور ہر اپوزیشن اس دعویٰ سے اختلاف کرتی ہے۔ حکومت کشکول توڑنے کا بھی دعویٰ کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔

بدھ 24 فروری 2016

Qarzoon Per Inhesaar
ملک کی خوشحالی کا دعویٰ ہر حکومت کرتی ہے اور ہر اپوزیشن اس دعویٰ سے اختلاف کرتی ہے۔ حکومت کشکول توڑنے کا بھی دعویٰ کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مختلف منصوبوں کے افتتاح سے یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ ملک حقیقی ترقی کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔دوسری جانب ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ملک قرضوں کی دلدل میں مزید دھنستا جا رہا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق موجودہ وفاقی حکومت کے ابتدائی 27 ماہ کے دوراقتدار میں ہر پاکستانی شہر پر قرضوں کے بوجھ میں مزید 24 ہزار روپے کااضافہ ہواہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2013 میں مجموعی قرضوں کی مالیت 16 ہزار 338 ارب روپے تھی جو ستمبر 2015 میں بڑھ کر 20 ہزار 706 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

(جاری ہے)

اس طرح وزیراعظم نواز شریف کے اقتدار میں قرضوں کی مجموعی مالیت میں 4368 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

جون 2013 تک مجموعی قرضوں کے لحاظ سے پاکستان کا ہر شہری 90 ہزار 700 روپے کا مقروض تھا۔ تاہم پاکستان کی ترقی کا دعویٰ کرنے والی موجودہ حکومت کے ابتدائی 27 ماہ کے دوران ہی مقامی اور غیر ملکی ذرائع سے بے تحاشہ ترقی حاصل کرنے کی پالیسی کی وجہ سے اس میں مزید 24 ہزار فی پاکستانی اضافہ ہو چکا ہے ۔ اسی طرح اس عرصہ میں غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی مجموعی مالیت میں 900 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو اہے۔

جون 2013 تک مجموعی غیر ملکی قرضے اور واجبات کی مالیت 6036 ارب روپے تھی جو ستمبر 2015 تک بڑھ کر 6945.7 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اسی عرصہ میں حکومت کے مقامی ذرائع سے حاصل شدہ قرضوں میں 3194 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔ جون 2013 میں مجموعی قرضوں کی مالیت 9520 ارب روپے تھ جو ستمبر 2015 تک بڑھ کر 12 ہزار 714.6 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ وفاقی حکومت قرضوں کو محدود رکھنے کے لیے 2005 میں متعارف کرائے گئے فسکل رسپانسبیلٹی اینڈ ڈیبٹ لمیٹینشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ اس ایکٹ کے تحت مجموعی قرضوں کو جون 2013 تک جی ڈی پی کے 60 فیصد تک محدود کرنا تھا۔ لیکن قرضوں کے بڑھتے ہوئے کلچر کی وجہ سے ہدف تاحال حاصل نہیں ہو سکا۔ وفاقی حکومت کو قرضوں کا جی ڈی پی سے تناسب 73.7 فیصد ورثے میں ملا جسے بمشکل کم کر کے 67.5 فیصد تک ہی لایا جا چکا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت قرضوں کی اصل رقم سے ڈیڑھ گنا زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کر رہی ہے۔

ریکارڈ کے مطابق سرکار نے ابتدائی 27 ماہ کے دوران غیر ملکی قرضوں کے پرنسپل اور اس پر سود کی مد میں3 ہزار 945 ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں جن میں سے قرض کی اصل رقم کی مد میں ایک ہزار 19 ارب روپے اور قرضوں کی سود کی مد میں 2ہزار 802 ارب روپے جبکہ واجبات پر سود کی مد میں 125 ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کی قرض پالیسیوں کی وجہ سے ملک اس حد تک پھنس چکا ہے کہ اب اس جال سے نکلنا ممکن نہیں رہا۔

کیا سرکار قرض کی پی کر یہ سوچ رہی ہے کہ ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ ؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا سود در سود اس خطر ناک جال سے نکلنے کیلئے بھی کوئی پالیسی تیار کی گئی ہے یا یہی سوچ لیا گیا ہے کہ قرض لیتے جائیں اور نتائج اگلی حکومتوں پر چھوڑ دیئے جائیں۔ ایسے قرض کو ملک دوستی قرار دیا جائے یا پھر یہ ملک دشمنی کے مترادف ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qarzoon Per Inhesaar is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 February 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.