پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام

چند سوافرادکیلئے کروڑوں غریب پس رہے ہیں ۔۔۔۔ قومی خزانے کو سالانہ 15 ارب ڈالر کا ٹیکہ

پیر 26 ستمبر 2016

Pakistan Main Taxoon ka Nizaam
بلال احمدشیخ :
پاکستان میں ٹیکسوں کانظام دن بدن گھمبیر ہوتا جارہا ہے اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کی کوشش میں عام آدمی پربراہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کابے تحاشابوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو بچانے کی خاطر سونے پراپرٹی ، سیونگ سکیمیں اور پرائز بانڈز کی خریداری کرتا تھا۔ اب پراپرٹی ٹیکس اور منافع پر بے انتہا ٹکس کے باعث سرمایہ غیر ملکی کرنسی اور سونے کی خریداری کی طرف چلا گیا ہے۔

عوامی سطح پر سرمایہ غیرممالک میں منتقل نہیں ہوپارہا لیکن اس وقت زیادہ ترتجاتی ، سیاسی سماجی شخصیات اور اشرافیہ تیز ی سے سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل کررہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر کے اثاثے یورپ ، امریکہ، بھارت، بنگلہ دیش، دبئی ملائیشیا، اور لاطینی امریکہ میں پڑے ہیں۔

(جاری ہے)


پاکستان میں 65000 رجسٹرڈ کمپنیاں ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں جن میں سے صرف 23000 ٹیکس ریٹرزجمع کراتے ہیں۔

ان میں سے بھی 11000 ایسی کمپنیاں ہیں جو اپنا منافع صفر بتا کر ٹیکس سے بچ جاتی ہیں۔ پاکستان میں 13000 زمیندارہیں جن کی ملکیت میں 60ہزار ایکڑزمین ہے لیکن وہ ایک روپیہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ نیویارک ٹائمز نے چند سال پہلے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاتھا کہ پاکستان میں کوئی رکن پارلیمنٹ ایسا نہیں جس کے اثاثوں کی مالیت 10 کروڑ روپے سے کم ہو جبکہ کچھ ارکان کے اثاثوں کی مالیت 10 ملین ڈالرز سے 50 ملین ڈالرز کے درمیان ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں چند سو لوگوں کیلئے کروڑوں لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ ابھی ہم اس ٹیکس کی بات کررہے ہیں جو آمدن پر نافذ ہے۔ سیلز ٹیکس بجلی کے بلوں میں ٹیکس ، ٹیلی فون اور موبائل حتی کہ ہر شے پر ٹیکس کی شرح 17 فیصد ہے جس کی زد عام آدمی کے استعمال کی ہرشے آتی ہے۔ اس کے بعد بینکوں میں ٹیکس کا نفاذ اور اب پراپرٹی ٹیکس نے عوام کیلئے شدیدمشکلات پیداکر دی ہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں60فیصد آبادی کی آمدن دو سوروپے روزانہ ہووہاں ہر سال 12 سے 15 ارب ڈالر کا ٹیکس چوری ہوجاتا ہے۔ پاکستانی معیشت کے 36 فیصد حصے کا ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ 12 سے 15 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوجاتا ہے ۔
پاکستان میں ٹیکس چوری پکڑنے کیلئے بنک اکاؤنٹس کو ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ایف ای آر نے بنک کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے اکھٹے گئے ہیں ٹیکس فائلر اور نان فائلر کیلئے ٹیکس کے مختلف ریٹس رکھے گئے ہیں۔

جو یقینا درست قدم ہے لیکن ٹیکس فائلر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ادارہ یاشخص ٹیکس ٹھیک ادا کررہا ہے۔ بنکوں کے اکاؤنٹس سے رقوم کاپے آرڈر بنوانے سے ایف بی آر کو اربوں روپے تو میسر آئیں گے لیکن دوسری طرف بنکوں میں سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے او ر سینکڑوں اکاؤنٹس بندکروا دیے گئے یا رقوم نکلوالی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بچتوں پر بھی بہت بھاری ٹیکس نافذ کردئیے گئے ۔


دنیا کا ہر ملک اپنے ہاں بچتوں کو فروغ دیتا ہے کیونکہ بچت ہوگئی تو سرمایہ کاری کیلئے اداروں کو سرمایہ میسر آئیگا۔ اس قت صورت حال یہ ہے کہ نان فائلر اگر کسی بھی رقم کو کسی بھی سکیم میں لگانا چاہے تو رقم کوفکس کرانے پر بھی ٹیکس دینا ہوگا۔ اس پر لگامنافع بھی ٹیکس کی زد میں آئے گا جو پہلے ہی سٹیٹ بنک کے شرح سود میں کمی کے باعث بہت کم رہ گیاہے۔

پھر اس رقم کی معیاد پوری ہونے اور واپسی پر بھی ٹیکس عائد ہوگا جس کی شرح ساڑھے سترہ فیصد کردی گئی ہے ۔
حکومت کے ان اقدامات کے باعث سرمایہ کی ترسیل بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ اس وقت پاکستان میں 40 کے قریب وفاقی ٹیکس اور 25 کے قریب صوبائی ٹیکس ہیں جومختلف موضوعات اور سروسز وغیرہ پر نافذ ہیں۔ ٹیکس کی مد میں وصولیاں ہمیشہ ہی مسئلہ رہی ہیں۔

حال ہی میں چین نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان سے چین جانے والے تاجر بینکنگ چینل سے پیسہ منتقل نہیں کرتے اور ہنڈی کے ذریعے رقم چین پہنچتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ پاکستان اور چین اگر اس مسئلہ کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاک چین تجارت سے قومی خزانے کو اربوں روپے ٹیکس جمع ہوسکے گا۔ حکومت تاجروں کو ٹیکس میں مراعات دے کر اعتماد میں لے تو وہ مئوثر طریقے سے ٹیکس دینے پر تیار ہوجائے ۔

جو ہاتھ آیا اُسی سے ٹیکس سمیٹ لووالی سکیم سے ٹیکس کی وصولی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ عوام اس کے باوجود ٹیکس دے رہے ہیں جبکہ اشرافیہ ٹیکس سے آزاد ہے 18کروڑ عوام میں سے صرف 3لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ ٹیکس بھی خام قومی پیداوار کے صرف 9 فیصد تک ہے جوباقی دنیا میں 20سے 25فیصد تک ہے ۔ اداروں میں کام کرنے والے افراد کو آمدن ادا کرنے سے پہلے ہی ٹیکس منہا کرلیا جاتا ہے جبکہ ملک کی دولت کا بڑا حصہ رکھنے والے ان کی ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کی جائیدادیں اور بینک بیلنس تمام قوانین سے آزادہیں۔

پاکستا کے قانون ساز نمائندوں میں سے 67فیصد ٹیکس فائلر نہیں جن میں آصف علی زرداری سمیت کئی دیگر لیڈر بھی شامل ہیں جن کا تعلق تمام سیاسی پارٹیوں سے ہے ان عیاشیوں کے علاوہ ہمارے زیادہ تر سیاستدان صنعتکار زمیندار تاجر بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے بھی معاف کروا چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ٹیکس نظام کو صحیح طریقے سے نافذ کیاجائے تو 20 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں آسکتے ہیں۔

فی الحال تو ناکارہ ٹیکس نظام میں مقررہ آمدن والا تنخواہ دار طبقہ اپنی 35 سے 40 فیصد آمدنی ٹیکسوں میں ادا کردیتا ہے ۔
پراپرٹی پر مزید ٹیکس نافذ کرکے اس شعبے کے مسائل میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی ان افراد کی پراپرٹی ٹریک کی جاتی جس نے بے شمار پلاٹ ، پلازے ، فیکٹریاں وغیرہ اپنے ملازمین اور رشتے داروں کے نام پر لے رکھے ہیں اور اُن اداروں کو پکڑاجاتا جو دس روپے کی زمین سکیموں کے نام پر دوسوروپے میں فروخت کررہے ہیں۔

پراپرٹی کے اس پیچیدہ نظام کے ساتھ ساتھ اس میں موجود افراد اور گھپلوں کی طرف قطعاََ توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس اقدام سے پراپرٹی کے اصل خریدار پریشان ہوگئے ہیں اور سرمایہ کاری رک گئی ہے جو سونا خریداری یاغیر ملکوں میں ترسیل ہونے لگے گی۔
پاکستان میں ٹیکس کا نظام شیدید کرپشن کا شکار ہے جس میں جوبھی طریقہ کاروضع کیاجاتا ہے وہ تمام تر غلط اندازوں پر منحصر ہوتاہے درحقیقت ٹیکس کا ڈھانچہ ہی غلط بنایا گیا ہے تاکہ بڑے بڑے افراد اس کا غلط استعمال کرسکیں ۔ یہ نظام پیچیدہ ہونے کے باعث عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Main Taxoon ka Nizaam is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 September 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.