عالمی یوم بچت اور پاکستانی معیشت

بچت قومی سطح پر ہو یا گھریلو سطح پر دونوں صورتوں میں نہایت اہم ہے۔ بچت کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے ایک خاص وقت میں انسان کی آمدنی میں سے اخراجات کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم کو ”بچت“ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رقم جو انسان اپنی آمدنی میں سے خرچ کرنے سے بچا لیتا ہے۔ اسے ذاتی بچت بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بنک میں جمع کرائی ہوئی رقم کچھ کے نزدیک شیئرز کی خریداری یا پھر پنشن پلان کی خریداری ہے

منگل 1 نومبر 2016

Aalmi Youm e Bachchat
بچت قومی سطح پر ہو یا گھریلو سطح پر دونوں صورتوں میں نہایت اہم ہے۔ بچت کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے ایک خاص وقت میں انسان کی آمدنی میں سے اخراجات کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم کو ”بچت“ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رقم جو انسان اپنی آمدنی میں سے خرچ کرنے سے بچا لیتا ہے۔ اسے ذاتی بچت بھی کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بنک میں جمع کرائی ہوئی رقم کچھ کے نزدیک شیئرز کی خریداری یا پھر پنشن پلان کی خریداری ہے لیکن معاشیات کی رو سے بچت کا صرف ایک ہی مطلب ہے ”کہ اپنے موجودہ ذرائع میں سے کم خرچ کرنا تاکہ بچائے ہوئے ذرائع کو مستقبل میں خرچ کیا جا سکے۔

بنک میں جمع شدہ رقم‘ سیکیورٹیز اور رہن میں سرمایہ کاری یا پھر اپنے پاس رقم کا زیادہ رکھنا بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

انسان کے بچت کرنے کے فیصلے کا انحصار اس کے اخراجات‘ متوقع آمدنی‘ اور شرح سودکو دیکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ سازی پر ہوتا ہے۔ کسی دانشور کا قول ہے ”ایک پیسہ بچانا ایک پیسہ کمانے کے برابر ہے معاشیات کی رو سے یہ اصطلاح سرکاری اور نجی بچتوں کا مجموعہ ہے۔

حکومتی شعبوں میں ہونے والی بچت سرکاری بچت کہلاتی ہے۔ اس کا انحصار حکومت کے بجٹ کی صورتحال پر ہوتا ہے اور یہ بجٹ کے خسارہ کے متضاد ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ٹیکس کی آمدن اور حکومتی اخراجات کے در میان فرق ہے‘ جبکہ نجی بچتیں افراداور کاروباری شعبے پر مشتمل ہوتی ہیں اسی طرح کاروباری بچتوں کا اندازہ ان کے غیر تقسیم شدہ منافع سے لگایا جا سکتا ہے۔

جب ایک آدمی بچت کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اپنے اخراجات کو کم کرتا ہے۔ جب وہ اپنے اخراجات کو کم کرتا ہے تو اس کی یہ بچت دوسرے آدمی کی آمدن کو کم کرتی ہے جس کے نتیجے میں دوسرا آدمی آمدن کم ہونے کی وجہ سے اپنے اخراجات/ اپنی کھپت کو کم کرتا ہے اس طرح پوری معیشت پر اثر پڑتا ہے اور انفرادی بچت سے اجتماعی بچت ہوتی ہے گھریلو بچتوں کو سرمایہ کاری کے فروغ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

اگر کسی معیشت میں حقیقی سرمایے کی کمی ہو تو اسے سرمائے کے لحاظ سے غریب معیشت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا سامنا تمام ترقی پذیر ممالک کو ہے۔ کیونکہ ”آج کی بچت کل کی سرمایہ کاری ہے۔ تھرل وال بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”ایک معیشت کی نمو کی بنیاد تعمیر سرمایہ پر ہے جس کے لئے سرمایہ کاری اور بچت دونوں ضروری ہیں ” معاشی ترقی حاصل کرنے کیلئے دو چیزوں‘ مسائل پر توجہ بہت ضروری ہے۔

اول یہ کہ بچت کیسے کی جائے۔ دوم اس بچت کو سرمایہ کاری میں کیسے تبدیل کیا جائے۔دور حاضر میں نئی نئی مصنوعات کی دستیابی اسراف کی عادت اور اشیائے صارفین کی بہت زیادہ پیداوار نے کسی بھی معیشت کی بچتوں کے حجم کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ ترقی پذیر قومیں غربت کے شیطانی جال میں پھنس گئی ہیں۔ یہ جال کم آمدنی والے لوگوں کی سطح سے شروع ہوتا ہے کیونکہ کم آمدنی والے لوگ بچت نہیں کر پاتے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوتی ہے اس سے سرمائے میں نہ صرف کمی آتی ہے بلکہ پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہے۔

پیداوار کی کمی کی وجہ سے آمدن کم ہو جاتی ہے۔ پسماندہ ممالک میں بچتوں کی کم شرح کی وجہ سے سرمایہ کاری 5% سے 8% ہے ترقی پذیر قوموں میں بھی حقیقی آمدن کی شرح بہت کم ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ قوموں مثلاً ”امریکہ‘ جاپان اور مغربی یورپ میں بچت کی شرح G.D.P کے 20 فیصد سے بھی زیادہ ہے چین کی بچتوں کی شرح G.D.P کے 50% سے بھی بڑھ گئی ہے۔ ورلڈ بنک کے اعشاریوں کے مطابق بنگلہ دیش میں مجموعی بچتیںG.D.P کا 36.1 فیصد بھوٹان میں 27.64 فیصد‘ سری لنکا میں 27.91 فیصد‘ جاپان میں 24.76 فیصد کینیڈا میں 20.39 فیصد جبکہ پاکستان میں G.D.P کا محض14.9 فیصد ہیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں آمدنی اور معیار زندگی میں فرق ہے۔

ترقی پذیر ممالک کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے معیار زندگی کی اندھی تقلید کرتے ہیں جسے عام زبان میں ”بین الاقوامی مظاہر اثر“ کا نام دیا جاتا ہے۔ایک اوربنیادی عنصر جو کہ بچتوں اور سرمایہ کاری کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ ہے کاروباری تنظیم کاری کی صلاحیت‘ پسماندہ قوموں میں اچھی اور موثر کاروباروی تنظیم کاری کی کمی ہے جو گھریلو بچتوں کو بروئے کار لا کر اپنی قوم کو ترقی کے راستے پر لاسکیں۔

شمپڑا ایک مشہور معیشت دان ہے جس نے معاشی ترقی کی رفتار کے تعین کے لئے دلیرانہ کاروباری تنظیم کاری پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے کاروباری تنظیم کار یا تاجر بہت جلد اور زیادہ منافع کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ سرمائے کی مارکیٹ کے خطرات کا سامنا کرنے سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ کیزین معیشت دانوں نے کہا ہے کہ ”جہاں زیادہ رسک ہوتا ہے وہاں منافع بھی زیادہ ہوتا ہے“ اس دور میں پاکستان کو بھاری بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔

اس خسارے کو پوراکرنے کے لئے مزید قرض کی طلب سے افراط زر اور شرح سود میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ پاکستان غربت کے شیطان جال میں پھنس چکا ہے اور دن بدن صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ بے روزگار ہیں اور افراط زر کا سامنا بھی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ بچت اور سرمایہ کاری کی ترغیب نہیں ہے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت کم ہے۔

ترقیاتی معاشیات کے مطابق ایک معیشت کے لئے 25% شرح بچت ضروری ہے لیکن پاکستان میں پچھلے عشرے میں شرح بچت بہت تیزی سے گری ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق قومی بچتیںG.D.P کا 14.9 % ہیں معاشی نمو کی شرح کم ہو کر 4.2% ہو گئی ہے پاکستان میں 50% فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی گر رہا ہے۔ زرعی شعبے پر بہت زیادہ انحصار ہے جو کم پیداوار کی وجہ ہے۔ لوگ بنیادی ضروری بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ مشکل وقت کے لئے بچت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ معیشت پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوتھ ہے جس کی وجہ سے قومی بچتوں کی شرح کم ہو گئی ہے پیداواری منصوبوں میں مالیاتی ذرائع کا مناسب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بچت کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Aalmi Youm e Bachchat is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 November 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.